برا جو ہے، کبھی اچھا نظر بھی آتا ہے
بدل بدل کے سدا بھیس ، شر بھی آتا ہے
دعا قبول ہو جب بھی ، اثر بھی آتا ہے
جو ڈوبتا ہے سفینہ ، اُ بھر بھی آتا ہے
کبھی یہ تیز ، کبھی سست تر بھی آتا ہے
برا ہو وقت ، تو لے کر ضرر بھی آتا ہے
کبھی یہ حال ، کہ بالکل نہ یاد وہ آئے
خیال اس کا ، کبھی رات بھر بھی آتا ہے
یہ عزم ہے ، جو بناتا ہے قلب کو فولاد
تہوں سے بحر کی ، لے کر گہر بھی آتا ہے
حیات سب کی بدلتا ہے ، سیکھنے کا عمل
یہ ساتھ لے کے ، متاع ِ ہنر بھی آتا ہے
سکوں سے تیرتی کب ہے حیات کی کشتی
کہ امتحان لیں موجیں ، بھنور بھی آتا ہے
حلال رزق جو کھائیں تو بندگی ہو قبول
سکوں ہو گھر میں ، دعا میں اثر بھی آتا ہے
جو جان لیتا ہے سچّائی کی حقیقت کو
وہ راہ ِ حق پہ ، بدی چھوڑ کر بھی آتا ہے
یہ صرف ذہن پہ کرتا نہیں اثر انورؔ
نظر کے تیر کی زد میں جگر بھی آتا ہے