اک ڈِزائن میں کئی رنگوں کے پردے مختلف
بس ! غزل میں ہوتے ہیں اشعار ویسے مختلف
کیمرے میں آ گئی تصویر نیچر کی بس اب
داغ چہرے کے مِٹا اور شیڈز دے دے مختلف
مختلف سمتوں میں دل کو کھینچتی ہیں خواہشیں
اور پھر ہر ایک خواہش کے تقاضے مختلف
کچھ لکیریں کھینچ بے ترتیب سی قرطاس پر
دیکھ ! اُس پر لوگ لکھ دیں گے فسانے مختلف
آئینہ خانے کی اِس میں تو کوئی خامی نہ تھی
شخص تھا اِک، آئینوں کے زاویے تھے مختلف
کثرتیں سمٹی ہیں اِک وحدت میں شاید اس لیے
ایک چہرے سے نکل آتے ہیں چہرے مختلف