دِیدار کی خُواہِش بھی ہو جائے اگر طاری
بَڑھ جاتی ہے بے چَینی، نَظروں کی طَلَبگاری
مَوصُول ہُوا مُجھ کو پَیغامِ مِلَن جَب سے
احساس میں جاری ہے اِک جَشن کی تَیّاری
اُس نے مُجھے سَونپے تھے اَلفاظ مُحَبَّت کے
مَیں نے اُسے دِکھلائی اَشعار کی فَنکاری
خُوابوں میں کبھی مِلنا قائم نہیں رہ پایا
یُوں وَصل کے رَستے میں حائل رہی بیداری
مَیں نے اُسے بھیجے تھےمَنظُوم کئی صَدمے
اُس نے مُجھے بھیجی ہے پُرسوز گُلوکاری
جو پیار کا رِشتہ ہو کَنگال نہیں ہوتا
اُلفَت میں نہیں ہوتی جَذبات کی ناداری
زَریاب، نہیں بھُولے ہَم وَصل کا وہ مَنظَر
جَذبوں کی حَرارَت میں احساس کی سَرشاری