وہ ہم نشیں ہی نہیں، بام و در سجانا کیا
چھلکنا آنکھ کا کیا، لب کا مسکرانا کیا
پیام لے کے ھوا اس کا اب نہیں آتی
اب اس کی یاد سے دل کا حرم بسانا کیا
نہ منزلوں کا پتہ ہے، نہ راستوں کی خبر
تو سر پہ بوجھ مسافت کا اب اٹھانا کیا
کسی کو عالم تاباں کی آرزو ہی نہیں
سو آندھیوں کے مقابل دیا جلانا کیا
خوشی سے ترک تعلق کا زہر پی تو لیا
اب اور خود کو محبت میں آزمانا کیا
رہیں گے ہوکے زمیں بوس خواب محلوں کے
"کہیں تو لٹنا ہے پھر نقدِ جاں بچانا کیا"
رہ طلب میں نہیں سرخرو ہوئی زریاب
سبب کوئی بھی ہو اس کا زباں پہ لانا کیا