مِرے دِل سے بِچھڑنے کی پریشانی نہیں جاتی
نجانے کیوں خیالوں سے یہ حیرانی نہیں جاتی
بہت مُدَّت ہُوئی وہ جا چُکا ہے چھوڑ کر مجھ کو
لَبوں سے اَب تَلَک اُس کی ثناخوانی نہیں جاتی
خَبَر ہے اَب نہیں آنا ہے اُس کو لَوٹ کر، پِھر بھی
پَلَٹ کر دیکھتے رہنے کی نادانی نہیں جاتی
نِگاہوں میں کوئی بھی مَوج اَب باقی نہیں، لیکن
مِرے احساس کے دریا سے طُغیانی نہیں جاتی
مُقابِل آئنے میں ایک ہی تصویر ہوتی ہے
مگَر وہ ایک ہی تصویر پہچانی نہیں جاتی
گُزَر جاتے ہیں کِتنے لوگ ہی آ کر خیالوں سے
تُمھاری یاد آتی ہے تو دِیوانی نہیں جاتی
خزائیں لے گئیں زریاب سَب میری تمنّائیں
مگر یہ خُشک پَتّوں کی فراوانی نہیں جاتی