جب یہ بینائی کھو گئیں آنکھیں
اس کے دیدار کو گئیں آنکھیں
تجھے دنیا میں ڈھونڈنے کے لیے
اک مسافر سی ہو گئیں آنکھیں
بس تری دید کی تمنّا تھی
دید کے بعد سو گئیں آنکھیں
دل دھڑکنا سکھا گیا دل کو
خواب آنکھوں میں بو گئیں آنکھیں
پھر پلٹ کر کبھی نہیں آئیں
وہ ترے ساتھ جو گئیں آنکھیں
لوگ بچھڑے ہوئے جو یاد آئے
میرے رخسار دھو گئیں آنکھیں
موسم گل میں بھی کبھی زریاب
میرا دامن بھگو گئیں آنکھیں