طنزو مزاح
راجندر سنگھ بیدی سے لاہور میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے جو پرانی انار کلی کے اس کمرے میں ہوئی جہاں باری علیگ اور حسن عباس رہتے تھے۔۔ " گنجے فرشتے " میں منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں لکھا ہے :
" راجندر سنگھ بیدی ، روسی ناول نویس شولوخوف کے" اینڈ کوائٹ فلوز دی ڈون " کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔۔ لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہؤا ہے۔۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کر دیا۔۔
نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی صاحب کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیر تبصرہ ناول نہیں پڑھا۔۔ میں نے بھی حقیقت کا اظہار کر دیا۔۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے محصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منھ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے ان کی دماغی اختراع ہے۔۔۔!!
**
طنزو مزاح
دوستو وسکی کی مایہ ناز کتاب "دا ایڈیٹ" سے ایک مزاحیہ واقعہ پڑھیے۔
دو سال پہلے یعنی ریلوے لائن کے افتتاح کے فورا بعد میں نے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ بک کیا جہاں آرام سے سگریٹ نوشی کے مزے لے سکوں، اور ہوا یوں کہ دو خواتین جن کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا بھی تھا (جو بہ ظاہر تربیت یافتہ لگ رہا تھا) آئیں اور میرے سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گئیں…!!! یہ دونوں پڑھی لکھی تھیں اور ایک دوسرے سے انگلش میں بات کررہی تھیں…!!! بہرحال! میں نے ان کی پروا نہیں کی؛ لیکن مجھے ایسا لگا کہ کہ ان دونوں کو میرے سگار پینے سے شکایت ہے…!!! ان میں سے ایک نے مجھے اپنے صدف سے مرصع چشمے کے پیچھے سے ترچھی نظروں سے گھورا؛ مگر میں اپنے سابقہ موقف پر اڑا رہا (اور دھواں چھوڑتا رہا)…!!!لیکن ایک دم بلا کسی تمہید اور مقدمے کے ان میں سے ایک نے میری انگلیوں کے درمیان سے سگار پکڑا اور ٹرین کی کھڑکی سے باہر ڈال دیا…!! ٹرین اپنی رفتار سے یونہی چلتی رہی ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو…!! میں صدمے سے اپنا ارد گرد بھول چکا تھا…!!! میں نے اپنے منھ سے ایک لفظ نہیں نکالا…!! ادھر وہ سنہرے بالوں اور سرخ چہرے والی نوجوان لیڈی مجھے گھورتی رہی…!!! آخر کار پورے اعصابی سکون کے ساتھ، اور نہایت نرمی اور احترام سے میں نے اپنا ہاتھ پھیلایا، تربیت یافتہ پلے کو متوجہ کرتے ہوے انگلیاں چٹخائیں، نہایت نرمی سے اس کی گردن پکڑی اور اس کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔۔۔۔ ٹرین یونہی چل رہی تھی گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا ماسوائے کتے کی چیخوں کے جو ابھی ہَوا میں ہی احتجاجاً بھونک رہا تھا۔
**