روبینہ میر کشمیر
” عالم ِ تخیل میں “
آؤ بھتیجی آؤ۔۔۔۔
بہت دنوں میں آئیں۔مزاج خوش ہے۔میر صاحب اچھی طرح ہیں۔میرن صاحبہ خوش ہیں۔تمہارے آنے کی خبر پائی تھی۔ یہ بھی کہ تم چچا کو بہت یاد کرتی ہو۔نورِ چشم ! ایک احتمال ہے۔لا حول ولاقوۃ ۔بھتیجی اللہ کا بندہ ہوں۔ اسی کی قسم کھاتا ہوں۔تم نے چچا بھتیجی کے رشتے پہ پانی پھیر دیا۔ایک عدد عذر یا شکایت ہو تو کچھ کہوں۔۔۔۔ والله ڈھونڈنے کو انسان نہیں ملتا۔مفصل حالات لکھنے سے ڈرتا ہوں۔میں غریب شاعر۔۔۔۔ میری کیا حقیقت؟ تمہارے دل کی خوشی کے واسطے۔
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
ہاں ہاں معلوم ہوا تھا سارا ہی عالم وبائےناگہانی میں مبتلا ہے! شہر چُپ چاپ۔۔۔ دلی بھی شہرِ خموشاں!! یعنی۔۔۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
خدا گواہ مجھے ایسی موت پسند نہ تھی۔خدا کا شکر بجا لاتا ہوں۔جو چلا آیا۔۔۔۔۔
حاکمِ وقت نے کیا حکم نامہ نکالا ہے؟تم نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔۔؟ الله کارساز ہے۔تمہاری شکایت بجا۔تم کو آفرین! پھر بھی یاد کیا۔نہ بتاتی تو میرے تصور میں بھی نہ گزرتا۔۔۔۔تمہارے واسطے۔۔۔۔ مجھ سے پوچھو کہ تم مجھ کو کیونکر بھول گئی؟
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
بھتیجی تم نے کیسے مان لیا؟ کہ ہم اپنے عزیزواقارب کو بھول گئے۔۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔عقل سے کام فرماؤ۔۔۔۔ میری زبان سے اگر تم نے سننا۔۔۔۔تو اب سنو! میری سالگرہ کے موقع پر سرکار ملک بھر میں تقریبات منعقد کرواتی ہے۔“میری بلا سے”۔۔۔۔۔ہم تو زندگی میں پائی پائی کو ترسے۔۔۔! اپنا ایک شعر یاد آیا کہے دیتا ہوں۔ دوست کہتے ہیں
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
خدا گواہ ہے کہ میں تم کو فرزند سمجھتا ہوں۔تو پھر کسی کو کیا شکایت؟
مانتی ہو تو مانو۔۔۔۔نہیں تو تم جانو۔۔۔ میں نے کیونکر جانا؟ روحانی محبتوں میں تکلف کیسا؟ میں نے تو آخری عمر تک لال پری سے عشق کیا۔تمہاری چچی تو اسی پر خفا رہتی تھیں!مگر وہ بھی کیا دن تھے بٹیا! گرچہ زندگی کے آخری ایام بیماری تکلیف میں کاٹے۔مگر مزاج کی شوخی ہو کہ ذہن کی تازگی برقرار رہی۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں میری عقل ونقل شامل نہیں۔
خبردار بھول نہ جائے۔میں اس تنہائی میں خطوں کے سہارے ہی جیتا ہوں۔ہم کو یاد لاتے رہنا۔ الله تمہارے بچوں کو دولت واقبال دے۔اور تمہیں ان کے سر پہ سلامت رکھے۔تو بیٹھو۔۔۔ میں چلا کھانا کھانے۔روزے خوار ہوں بٹیا۔۔۔۔
دعاؤں کا طالب
چچا غالب
١٩ مئی ٢٠٢٠ء
***
شاداب انجم
انگلش ہو کہ دیسی ہو کہ رم ،بیچ رہے ہیں
لاک اپ میں پولس والے چِلم بیچ رہے ہیں
کھینی ہوکہ گٹکا ہو کہ تمباکو کہ زردہ
ہم طاق پہ سب رکھ کے نِیم بیچ رہے ہیں
***
عبدالرزاق بے کل
سویپر نے کہیں جا کر جو کر لی نوکری ازخود
ابھی گزرے تھے دو ہفتے مِلی یہ چِٹّھی امّاں کو
وداعہدہ، دعا سوں تیری دو تھوں چار ہو گےیاں
مبارک ہو اسے بےکل کہ ہو خود اس کی امّاں کو
***
شاداب انجم
آج عینک اگر نہیں آتی
"کوئی صورت نظر نہیں آتی"
سارا دن سو کے پوچھتا ہے مجھے
"نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
***
شاداب انجم
جسے چاہا نہیں پایا، مرے پھوٹے کرم نکلے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ضیافت کی تمنا تھی نہ پوچھا تو نے پانی تک
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
***
شاداب انجم
جِس کو نہ آئے گا ترس اِس حالِ زار پر
اس کو رلائے گا وہی جوکر مِری جگہ
مہتاب عید کا یہی کہتا پِھرے، ہنوز
بےکل سہیل آ گیا اُٹھ کر مِری جگہ
***
اصغر شمیم کولکتہ
ہم تو دریا تھے سمندر ہو گئے
شعر گا گا کر سخنور ہو گئے
دوسروں کی شاعری کو مار کر
ہم مقدر کے سکندر ہو گئے
شعر پڑھتے ہیں اچھل کر بزم میں
ایسا لگتا ہے کہ بندر ہو گئے
کیا کہوں اب شاعری کے نام پر
ایرے غیرے بھی سخنور ہو گئے
چار غزلیں زندگانی میں لکھیں
کتنے فیمس ہم بھی پڑھ کر ہو گئے
بولیاں لگتی ہیں اپنے نام پر
ہم بھی مہنگے شاعر اصغر ہو گئے
***
فرحان حیدر
میں نے کسی کو تحفہ نیا پیرہن دیا
بدلے میں اس نے مجھ کو پھٹا پیرہن دیا
۔۔۔۔۔۔۔
اک رات تارے تکتے ہوئے جا رہا تھا میں
آگے تھا ایک پیڑ،اب انجام کیا کہوں
***
کامل جنیٹوی
محبت کی، وفا کی، پیار کی گھٹیا کھڑی کردی
کبھی دل کی کبھی دلدار کی کھٹیا کھڑی کردی
ادھر 'سی او' کو ڈانٹا 'ایس پی' نے اپنے دفتر میں
اُدھر 'سی او' نے تھانیدار کی کھٹیا کھڑی کردی
***
ضربِ کلیم
اردو کے ممتاز ادیب و شاعر عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے حوالے سے واقعات نام ور شاعر، ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے اپنے مضمون میں رقم کیے ہیں.. ایک جگہ لکھتے ہیں:
کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں غالباً ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل یا اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں شعر و سخن سے ایک گونہ لگاؤ تھا، اکثر مشاعرے رچاتے۔ ایک مشاعرہ میں سالک صاحب بھی شریک تھے۔ کسی نے ان سے کلیم صاحب کے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہا:
"آپ کلیم صاحب کے صاحبزادے ہیں"
رگِ ظرافت پھڑک اٹھی فرمایا:
تو یہ کہیے آپ "ضربِ کلیم" ہیں
“میں لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو محبت نہیں کر سکتے، انہیں معلوم نہیں کہ جب وہ محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، تب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں“
***
دوبارہ ٹرائی کر لیں
خواتین کے گروپس میں کیا ہوتا ہے دیکھیں
ایک خاتون پوسٹ کرتی ہیں "میں نے پانی ابالا لیکن وہ اتنا گرم نہیں ہوا جتنا مجھے چاہئے تھا "
اس پر خواتین کے کمنٹس:
پہلی خاتون: اوہ مائی گاڈ آپ پانی ابال رہی ہیں؟
دوسری خاتون: لول اب لوگ یہاں پانی بھی ابالیں گے؟
تیسری خاتون: اتنی گرمی میں کون پانی ابالتا ہے بھئی؟
چوتھی خاتون: ہمارے دین میں اتنا پانی ابانا منع ہے۔ آپ کو اتنا بھی نہیں پتہ؟
پانچویں خاتون: آپ اتنی پرسنل بات یہاں کیسے شئیر کرسکتی ہیں؟ یا اللہ کیا ہوگیا ہے آج کل کی عورتوں کو۔
چھٹی خاتون: (اپنی سہیلی کو ٹیگ کرتے ہوئے) یہ دیکھو!! یہ مسئلے بھی ڈسکس ہوتے ہیں یہاں بس یہی رہ گیا تھا دیکھنا۔ تم بھی ایسے رونے ڈالتی ہو پبلک میں
ساتویں خاتون: میرے ہبی تو مجھے پانی نہیں ابالنے دیتے یاااار۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ میری ساس تو کہتی ہیں نہ ابالو ہاتھ نہ جل جائیں۔ میرے ابو نے تو کبھی مجھے گرم پانی ٹچ تک کرنے نہیں دیا
آٹھویں خاتون: اپنی ساس کو کہنا تھا خود ابال لیں۔ ڈُبکی دے دیتی اپنی ساس کو پانی میں۔ پتہ نہیں کیا سمجھتی ہیں اپنے آپ کو بہو بھی تو بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔
نویں خاتون: (بس کمنٹس پڑھتی ہے، سکرین شاٹس لیتی ہے تاکہ دوسروں کو دکھائے اور خوامخواہ ہنستی ہے۔ )
(وہ واحد خاتون جو سمجھ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں) آپ نے آنچ کم رکھی ہوگی یا برتن ٹھیک سے نہیں رکھا ہوگا۔ پریشان نہ ہوں ایسا ہوجاتا ہے دوبارہ ٹرائی کرلیں۔
***