دفعتاً رونے کی آواز سن کر محلے کے لوگ چونک پڑے۔
اس آواز میں بڑا درد تھا، بڑی مظلومیت تھی۔ لگتا تھاکوئی ضعیف شخص اپنی بے بسی اور لاچاری پر زاروقطار رورہاہے۔
وہ کون شخص ہوگا جو اتنی رات گئے محلے والوں کے دلوں کو بے چین کیے دے رہا ہے۔لحاف و کمبل سے نکلنا لوگوں کو گراں گزر رہا تھا لیکن یہ گاؤں کی روایت کے خلاف تھا کہ کوئی فریاد کرے اور گاؤں والے نظر انداز کردیں۔
چاندابھی مشرقی افق پہ اپنے نمودار ہونے کا عندیہ دے رہا تھا اس لئے سارے گاؤں میں اندھیرے کی حکمرانی تھی۔صرف تاروں کی چھاؤں تھی جس میں لوگوں کے بس ہیولے نظر آرہے تھے۔
رونے کی آواز گاؤں کے سب سے پرانے کنویں کی طرف سے آرہی تھی۔آس پاس کے دروازے کھلنے لگے۔ دریافت حال کے لئے محلے کے کئی افراد اس کنویں کے قریب پہنچ گئے۔ ان میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی۔ عورتیں اپنے اپنے دروازوں پرکھڑی تجسس بھری نگاہوں سے جائے واقعہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
یہ کنواں پُرکھوں کے زمانے کاہے۔ یہ گاؤں کے کئی واقعات و حادثات کا گواہ ہے۔ اس کی چاروں اطراف میں بنا لمباچوڑا چبوترہ گاؤں والوں کے بڑے کام آتا ہے۔ گاؤں میںہونے والے کسی تنازع پریہ پنچوں کا منچ بن جاتا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں سیاسی جلسوں کے لئے یہ اسٹیج کا بھی کام کرتاہے۔ اکثر یہ چوپال کے طور پر بھی استعمال ہوتاہے۔ موسمِ گرمامیں،رات کو جب گھروں میں امس زیادہ ہوتی تو بڑے بوڑھے اسی چبوترے پرشب باشی بھی کر لیتے ہیں۔ اس گاؤں سے گزر کر آگے کسی گاؤں کو جانے والے راہی اسی چبوترے پر بیٹھ کر، پاس کھڑے پرانے نیم کی گھنی چھاؤں میں کچھ دیر سستا لیتے ہیں۔
کنویں کے پاس کھڑے نیم کے تناوردرخت کے سبب کنویں کے آس پاس گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔
آنے والوں میں دو تین لوگوں کے ہاتھوں میں لالٹینیں تھیں ،ایک دو شخص کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں جن کی روشنیاں اندھیرے کو شکست دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔دوچار نوجوان یہ کام اپنے موبائیل فون میں لگی چھوٹی سی ٹارچ سے لے رہے تھے۔
کنویں کے قریب پہنچ کر لوگوں نے دیکھا کہ اس کے چبوترے پر کوئی بوڑھاشخص اس کی جگت سے ٹیک لگائے بیٹھا رورہا تھا۔
’’ارے کون ہے بھائی۔۔۔۔کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ کسی نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
ان ہمدردانہ سوالوں اوروہاں جمع بھیڑ میں ہورہی چہ میگوئیوں کی آواز سن کر بوڑھے نے سر اٹھا کرلوگوں کی طرف بے کسی سے دیکھا اور ۔۔۔اور بلک بلک کر رونے لگا۔ کچھ بول نہیں پایا۔
اس کے سر اٹھانے پر کسی نے پہچان لیا۔ ’’ارے یہ تو رمضانی چاچا ہیں۔‘‘
دوسرے نوجوان نے بڑی اپنائیت سے پوچھا۔‘‘کیا ہوا رمضانی چاچا؟‘‘
لیکن رمضانی چاچاکچھ نہیں بولے۔ بس روتے ہی رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ رونے پر قابو نہیں پارہے تھے۔ کچھ بولنے کے لئے زبان کھولتے کہ اندر سے ایک درد بھری لہر اٹھتی اور رونے میں تیزی آجاتی۔
’’خدا نہ کرے کیاکسی کی۔۔۔۔۔؟ سوال ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ سب لوگ سمجھتے تھے کہ یہ کیا سوال ہے؟ ادھورے سوال میں آگے کون سے الفاظ ہوں گے۔ لیکن ان الفاظ کو ادا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
’’نہیں !‘‘ رمضانی چاچا کی زبان سے بس اتنا ہی نکلا۔
’’پھر کیابات ہے۔۔۔۔اتنا بلک بلک کر کیوں رو رہے ہو؟‘‘ اس بار ایک عمر دراز شخص نے پوچھا۔ اس کے لہجے میں ہم عمر ہونے کی بے تکلفی بھی تھی اور غمگساری کی جھلک بھی۔
اس سوال پر رمضانی چاچا جیسے پھٹ پڑے۔’’ یا اللہ مجھے موت دے دے۔۔۔۔یہ دن دیکھنے کو میں زندہ رہا۔‘‘
الفاظ تھے کہ دردویاس میں ڈوبی ہوئی آواز کا ایک طوفان۔ وہاں موجود سارے لوگوں کے کلیجے دہل گئے۔
ضرور کوئی انہونی ہوئی ہے۔ ورنہ رمضانی چاچا اس طرح کیوں بلکتے؟ وہ عورتوں سے بھی زیادہ کلپ رہے تھے۔
پھر وہاں موجودلوگ آپس میں ہی اٹکل لگانے لگے۔ سب اپنے اپنے ڈھنگ سے قیاس کرنے لگے۔ لیکن ہرکوئی اپنے قیاس پر مطمئن نہیں تھا۔
’’چپ ہو جا رمضانی ۔۔۔۔چپ ہوجا ۔۔۔۔اوربتا کیا بات ہے؟‘‘ ایک بوڑھے شخص نے ان کے کاندھے کو تھپتھپا کر دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ اس دلاسے پراب رمضانی چاچا صرف سسکیاں لینے لگے۔
’’کیا معاملہ ہے بھئی ؟‘‘ اچانک ایک پاٹ دار آوازنے سب کو چونکا دیا۔ لوگوں نے آواز کی طرف سر گھماکردیکھا گاؤں کے شکور چاچا بھیڑ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لوگوں نے انھیں راستہ دے دیا۔ وہ کنویں کے چبوترے پر بیٹھے رورہے شخص کی طرف غور سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ کسی نے لالٹین اٹھاکر اس کی روشنی رمضانی چاچا کے چہرے کی طرف کی۔
کسی نوجوان نے بتایا۔’’رمضانی چاچا ہیں۔۔۔۔بہت پوچھنے پر بھی کچھ نہیں بتارہے ہیں۔‘‘
’’اچھا!۔۔۔‘‘ کہہ کر وہ رمضانی چاچا کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ٹھنڈ کی وجہ سے رمضانی چاچا کے تھرتھراتے اور کانپتے جسم کو دیکھ کر شکور چاچا نے بھیڑ میں اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہا۔’’منیر، جا دوڑ کر گھر سے پہلے ایک کمبل لے آ۔‘‘
فوراً ہی کمبل آگیا۔شکور چاچا نے انہیں اپنے قریب بلایا۔رمضانی چاچا کھسک کرچبوترے کے کنارے آگئے۔
پھر شکور چاچانے اپنے ہاتھوں سے کمبل کو اچھی طرح ان کے جسم کے گرد لپیٹ دیا۔ پھر پوچھا ’’کیا بات ہے رمضانی بھائی؟‘‘
’’رمضانی بھائی‘‘ کے اپنائیت بھرے فقرے سے جیسے رکے ہوئے آنسوؤں کا باندھ ٹوٹ گیا۔بلبلا کر بولے۔’’آج رجوا نے بہت مارا ہے؟‘‘
’’رجوا؟‘‘ شکور چاچا نے حیرت سے پوچھا۔’’تمھارا بیٹا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
سبھی کے دماغ گھوم گئے۔ اتنا بڑا انّیائے ؟اس بڑھاپے میں یہ درگت۔۔۔!ضعیفوں کے چہروں پر اندیشوں کی کئی پرچھائیاں آکر گزرگئیں۔ کیا اب گاؤں میں بھی بوڑھوںکا گھر(Old Age Home) بنے گا؟وہ لوگ متوحش نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے بچے بھی یہ سلوک ان کے ساتھ کرنے لگیں۔
رمضانی چاچایہی کوئی ستّر برس کے ہوں گے۔ شکور چاچاکے ہم عمر۔ ان سے دوچار مہینے چھوٹے ہوں تو ہوں۔ ان کی کل چار اولادیں تھیں۔ دو بیٹے ، دو بیٹیاں ۔ دونوں بیٹیاں بیاہ دی گئی تھیں۔ بڑا بیٹا جوانی میں داغِ مفارقت دے گیا تھا۔ اب ان کے گھر میں کل پانچ پرانی تھے۔ دونوں بوڑھے بوڑھی ، چھوٹا بیٹا راجو،اس کی بیوی اور ان کا پوتا۔
یوں تو آئے دن رمضانی چاچا کے گھر میں چپقلش ہوتی رہتی تھی۔ کبھی باپ بیٹے میں ، کبھی ساس بہو میں۔ریاض احمد عرف رجوا ذرا تیز مزاج کا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی بیوی کی طرفداری میں والدین سے الجھ پڑتاتھا۔ وہ ماں باپ کو ہمیشہ بوجھ سمجھتا تھا۔لیکن ایسا بھی کیاکہ باپ پر ہاتھ چھوڑنے کا گناہِ عظیم کربیٹھے۔ ان ہی کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے اور ان ہی کو گھر بدر کردیا ہے۔ نزدیک کے شہر کی بڑی کمپنی میں Employee's son schemeکے تحت ہی اسے ملازمت ملی ہے۔ رمضانی چاچا چاہتے تو یہ نوکری اپنے داماد کو دلا دیتے۔لیکن اولاد کا حق مارنا انھیں مناسب نہیں لگاتھا۔ حالانکہ وہ شروع سے جانتے تھے کہ رجوا وفادارنہیں نکلے گا۔
کچھ نوجوان تو اتنے طیش میں آگئے تھے کہ اسی وقت چل کر رجوا کو ’’سمجھا‘‘ دیناچاہتے تھے۔
کسی نوجوان نے کہا۔’’ شکور چاچا ۔۔۔آپ ہی جاکر رجوا کو سمجھائیے ۔۔۔۔ایسی غلطی نہ کرے۔۔۔۔باپ ہیں۔۔۔۔ بوڑھے ہیں۔۔۔۔باپ پر ہاتھ اٹھانا تو بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہاراکہناصحیح ہے بیٹے۔۔۔۔لیکن کہیں ببول کے پیڑپربھی پھل لگتاہے۔۔۔اس وقت تو سمجھانے کااس پرکوئی اثر نہیں ہو گا۔۔۔ ابھی وہ غصے میں ہوگا۔۔۔ہو سکتا ہے الٹا وہ ہماری بے عزتی کر بیٹھے ۔۔۔۔‘‘
شکور چاچا کافی سمجھدار شخص ہیں۔ گاؤں میں ضرور رہتے ہیں لیکن انہیں دنیا کا بڑا تجربہ ہے۔ شہر کی ایک بڑی کمپنی میں انھوں نے پینتیس برسوں تک ملازمت کی ہے ،رمضانی چاچا کے ساتھ ساتھ۔ اکثر تو وہ دونوں ایک ساتھ ڈیوٹی کے لئے گاؤں سے نکلتے تھے۔
’’کیاہوا تھا رمضانی بھائی؟‘‘انھوں نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔ وہ ہمیشہ رمضانی چاچا کو ’’رمضانی بھائی ‘‘ہی کہہ کر پکارتے تھے۔
’’ کچھ نہیں بھیّا۔‘‘ رمضانی چاچا کا رونا بہت حد تک کم ہوگیا تھا۔’’کوئی خاص بات نہیں تھی۔۔۔۔آج بہو نے کھانے میں صرف دوروٹی دی تھی۔۔۔میں نے کہاایک اور دے دو ۔۔۔۔بس لگی بکنے جھکنے۔۔۔بیٹھے بیٹھے کھا رہے ہو۔۔۔کام کانہ کاج کا دشمن اناج کا۔۔۔۔میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ گالیاں بکنے لگی۔۔۔میں نے بہو کو ڈانٹا تو رجوا اس کی طرفداری میں مجھ سے الجھ پڑا ۔۔۔نشے میں جو بکنا تھا بکا۔۔۔۔اور تو اور ۔۔۔۔مجھے کئی تھپڑ مارے اور دھکیل کر گھر سے باہر نکال دیا۔۔۔اور۔ ۔۔۔۔‘‘
اس سے آگے وہ بول نہ سکے ، بلک بلک کرپھر رونے لگے۔
یہ تفصیل سن کر بہتوں کے خون گرم ہوگئے لیکن کیا کرسکتے تھے۔
’’بہت افسوس ہوا ۔۔۔رجوا نے یہ اچھانہیں کیا۔۔ لیکن صبر کرو رمضانی بھائی۔۔اللہ دیکھ رہا ہے۔۔ آج نہیں تو چالیس سال بعد اس کا بیٹا تمہارا بدلہ ضرورلے گا۔‘‘ شکور چاچا کی آواز فضامیں گونجی۔ عجیب لہجہ تھا ان کا۔ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہمدردی جتارہے ہیں یا طنز کر رہے ہیں یا تمسخر۔
ایں! ۔۔۔۔چالیس سال بعد ۔۔۔۔شکور چاچا کیاکہہ رہے ہیں؟۔۔۔۔سٹھیاگئے ہیں کیا؟۔۔۔۔ارے مسئلہ ابھی کا ہے ۔۔۔۔ رمضانی چاچا چالیس سال تک اسی کنویں کے چبوترے پر بیٹھے انتظار کرتے رہیں گے کیا؟ ۔۔۔۔شکور چاچا تو بڑے معاملہ فہم آدمی سمجھے جاتے ہیں۔۔۔۔یہ بے تکی بات ان کی زبان سے کیسے نکل گئی؟
’’کیاکہہ رہے ہیں چاچا؟۔۔۔۔چالیس سال بعدکیاہوگاکون جانے۔۔۔۔پتا نہیں رمضانی چاچازندہ بھی رہیں گے یا نہیں۔‘‘ کسی نوجوان نے ذرا طیش میں آکر کہا۔
’’کون زندہ رہے گا کون چلاجائے گا اس کا تو علم صرف اللہ کو ہے بیٹے۔ ‘‘ شکور چاچابڑی نرمی سے سے بولے۔’’ ہم نے دیکھاہے ۔۔۔اور تم لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا ۔۔۔۔جوان بیٹے کا جنازہ بوڑھے باپ کے کندھوں نے اٹھایا ہے۔‘‘
ہا ں واقعی ، یہ بات تو چاچا ٹھیک کہتے ہیں۔ یہ تو آفاقی حقیقت ہے۔ یہ بات مجھے نہیں کہنا چاہئے تھی۔۔۔۔اس بات کی زد تو شکور چاچا پر بھی پڑتی ہے۔۔۔شکور چاچا تو گاؤں میں برگد کی چھاؤں جیسے ہیں۔۔۔۔اگر وہ دنیا سے چلے گئے تو گاؤں تو جیسے یتیم ہوجائے گا۔۔۔ان کی موجودگی میں گاؤں کے لوگ کتنی طمانیت محسوس کرتے ہیں۔۔۔وہی تو ایک ہیں جو گاؤںوالوں کے دکھ سکھ میں بہت اخلاص اوراپنائیت سے شریک ہوتے ہیں۔۔۔
’’معاف کیجئے گا چاچا۔۔۔غلطی سے یہ بات زبان سے نکل گئی۔۔۔لیکن چاچا ۔۔۔۔یہ مسئلہ توابھی کاہے ۔‘‘ اس نوجوان نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ اس کے لہجے میں ندامت تھی۔
’’بیٹا یہ مسئلہ صرف آج کاہی نہیں ہے۔۔۔۔یہ مسئلہ چالیس سا ل بعد کا بھی ہے۔۔اسی طرح کا ایک مسئلہ چالیس سال پہلے بھی تھا۔۔۔۔۔‘‘
’’ہم لوگ آپ کی بات نہیں سمجھ پارہے ہیں چاچا۔‘‘
’’تم لوگ ابھی نہیں سمجھو گے۔۔۔۔چالیس سال بعد شاید تم سمجھ جاؤ۔۔۔‘‘ شکور چاچا اتناکہہ کر رمضانی چاچاسے مخاطب ہوئے۔ ’’رمضانی بھائی ۔۔۔۔تم کو یاد ہے نہ وہ چالیس سال پہلے کا واقعہ۔۔۔۔مجھے تو اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ایسا ہی یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔۔۔۔اور یہاںموجود بہت سے بوڑھوں کوبھی ہوگا۔۔۔۔ایسی ہی ایک جاڑے کی رات تھی ۔۔۔۔اور تقریباً یہی وقت تھا۔۔۔۔کنویں کے اسی چبوترے پر جہاں تم بیٹھے ہو۔۔۔۔بالکل اسی جگہ تمہاراباپ بیٹھا بلک بلک کر رورہاتھا اور کہہ رہا تھا ۔۔۔ آج رمضانی نے بہت مارا ہے۔۔۔۔‘‘
سسکتے سسکتے رمضانی چاچا اچانک خاموش ہوگئے۔
تھوڑے توقف کے بعد شکور چاچا کہنے لگے۔ ’’انسان کے کچھ اعمال کی سزا خدا دنیا ہی میں دے دیتا ہے ۔۔یہ اس کا قانون ہے اور ہم اس کے قانون میں کیا دخل دے سکتے ہیں؟‘‘
اتنا کہہ کر وہ مڑے اور اپنے گھر کی طرف چل دئیے۔
لالٹینوں کے ساتھ اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے جھک گئے۔ٹارچوں اور موبائیل فونوں کی روشنیاں بجھ گئیں۔
چاند نمودار ہوچکا تھا۔ اچانک ہی لوگوںکو احساس ہواکہ ٹھنڈک مزید بڑھ گئی ہے۔ تب گھروں کے دروازے بند ہونے لگے۔
تھوڑی ہی دیر میں رمضانی چاچاوہاں تنہا رہ گئے۔ لیکن نہیں ، وہ تنہا نہیں تھے۔ ان کے پاس تھا اس حادثے کا گواہ وہ بوڑھا کنواں اور ساتھ میں تھیں چالیس پہلے کی یادیں اور ان کی سسکیاں۔
**
نام:تنویر اختر
قلمی نام:تنویر اختر رومانی
ولدیت:بسم اللہ (مرحوم)
سیر النسا(مرحومہ)
آبائی وطن:نیابازار، بھدوہی، ضلع:بنارس
(اب سنت روی داس نگر)
جائے ولادت:نیابازار، بھدوہی، ضلع:بنارس
(اب سنت روی داس نگر)
تاریخ ولادت:10 فروری 1957ء
تعلیم:بی اے (اردو آنرس)، بی ایڈ
پیشہ:درس و تدریس
کبیریہ اردو مڈل اسکول
ذاکرنگر، جمشیدپور میں بطور معلم
**