زمیں کی چھاتی سے لپٹی بل کھاتی نیلگوں سیاہی مائل تارکولی سڑک کسی شیر خوار کی طرح لگتی ہے۔جو اپنی مادر حقیقی کے سینے سے الگ ہونے کا سوچتی ہی نہیں ۔جرنیلی سڑک ( گرینڈ ٹرنک جسے جی ٹی روڑ بھی کہا جاتا ہے) کے شاہ۔دماغ شیر شاہ سوری کا تو چار دانگ عالم میں چرچا ہے۔جس سے شرق و غرب ایک ہوچکے ہیں۔ ٹھنڈی سڑک کی بازگشت بھی کہیں کہیں سنائی پڑتی ہے۔سڑک ہموار اور۔کھلی ہو تو میلوں کی۔مسافت بھی کچھ نہیں کہتی، اہل یونان نے سڑکوں کو صاف ستھرا رکھنے راتوں کو روشنی کا انتظام کرنے کی داغ بیل ڈالی ۔اہل اسلام سڑک پر سے کانٹے اور پتھر ہٹانے پر بھی ثواب پاتے ہیں اگر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گڑھوں سے آراستہ ہو تو غریب بیمار کی رات بن جاتی ہے جو کاٹے نہیں کٹتی، تاہم گردے اور مثانے کی۔پتھری کے مریضوں کے لیے ایسی سڑک ھوالشافی کا کردار ادا کرتی ہے۔سڑک لمبی سنسان اور درختوں سے گھری ہو، تو رومانس کرنے، محبوب کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے کے لیے ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔سڑک بھیڑ بھاڑ اور ہجوم سے پُر ہوتو جیسا کہ شاہی بازار، بہاول پور انار کلی لاہور، راجہ بازار راولپنڈی، بانو بازار حیدر آباد، طارق روڑ کراچی مال روڑ مری تو منچلے چٹکیوں اور انگلیوں سے صنف نازک کو دن میں تارے دکھا دیتے ہیں ۔اور اگر یہ نامراد خدائی خدمتگاروں کے ہتھے چڑھ جائیں تو شفاخانہ اشرف المخلوقات یا دراؤغہ جی ہاں آنکھ کھولتے ہیں ۔اور ہاں جیب تراشوں کا کاروبار حیات بھی ایسی سڑکوں پر ہی پھلتا پھولتا ہے ۔ہمارے ہاں سڑک پر۔ہرکسی کو جلدی ہوتی ہے۔لیکن سڑک کو کوئی جلدی نہیں ہوتی۔وہ سب کو اپنے سینے پر راستہ دیتی ہے ۔انکا بوجھ برداشت کرتی ہے۔انسان و حیوان کی گندگی تک سہہ لیتی ہے۔سڑک اور طوائف کے وصف اگر انسانوں میں آجائیں تو معاشرہ مثالی نا ہوجائے ۔سڑک کچی تھی تو انسان غیر ترقی یافتہ تھا۔سڑک پکی ہوئی تو انسان کو بھی پر لگ گئے ۔معاشی و معاشرتی ترقی سڑک کے بغیر ممکن ہی نہیں، سڑک ناہوتی تو سوچیں کیا کسان اور اجناس منڈی آپاتے، شہر والوں کو اناج ملتا، دیہات شہری سہولتوں سے مستفید ہوتے۔سڑک گلی محلے کی ہو یا شہر کی گاؤں کی ہو یا موٹروے کی انسان کا سفر اسی سڑک کی بدولت ہی منزل بامراد ہوتا ہے اپنی اپنی سوچ ہوتی یے ایک راہنما کہتا ہے سڑکوں سے قومیں ترقی کرتی ہیں جبکہ ایک اور راہنما کہتا یہ سڑکوں سے قومیں نہیں بنتیں۔اس مسئلے میں آپ ہم پر نا رہیے بلکہ اسی کی بات مانیں جو آپکا راہنما ہے۔ویسے سڑک بنانے والوں کی قسمت بھی منزل بامراد ہوتی ہے ہر نئی سڑک کے ٹھیکے میں انکا نصیب اوج ثریا پر جاپہچتا ہے۔ سڑک بنانے والا ٹھیکدار نقشہ بنانے والا ڈرافسمین، تخمینہ لگانے والا اورسیئر، کام کی نگرانی کرنے والا ایس ڈی او، اور اخراجات کی منظوری دینے والا ایکسئین اپنی اپنی اوقات کے مطابق براہ راست من و سلوی سے مستفید ہوتے ہین۔سڑک کو راہ اور راستے کا استعارہ بھی کہاجاتا ہے۔دل کی گہرائیوں اور دماغ کی وسعتوں کے راستے راہ کی دھول بھی ہوتے ہیں اور تشنہ لبی کی داستانیں بھی۔ سڑک پر شاعروں نے شعر نہیں کہے البتہ پھیرے بہت مارے۔ایک موسیقار نے تو سڑکے سڑکے جاندی مٹیار پر ہی گانا لکھ ڈالا جو زبان زد عام ہوا۔لیکن شاعر مرحوم اس سڑک کا پتا دل ہی دل میں لیے راہی عدم ہوگئے ۔ اکثر ناولوں میں ایک منظر کشی کی جاتی ہے کہ چاندنی رات میں لمبی سڑک پر کیکٹس کے پھولوں کی مہک اور رات کی رانی کی خوشبو سے بوجھل فضا میں ع اور غ بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلے جارہے تھے انکے پیروں کے نیچے پتوں کی۔چرمراہٹ ایک عجیب تال میل بنارہی تھی۔ہلکی ہلکی خنک ہوا غ کی زلفوں کو مہمیز کررہی تھی۔اور ع اسکے زلفوں کی مہک میں سرشار ہوا جارہا تھا ۔ایسا عملی تجربہ اگر کسی کو ہوا ہو تو بتائیے گا ضرور۔شادی سے پہلے سسرالستان جانے والی سڑک پھولوں کی ڈگر، کوچہ جاناں، پرستان اور نجانے کیا کیا لگتی یے۔تاہم شادی کے بعد یہی سڑک آگ کا دریا اور صحرا کا سفر لگتی ہے۔ گھر داماد یا کچھ داماد اس بات سے اختلاف کرسکتے ہیں۔سڑک تو سڑک ہے اور ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ویسے سڑکوں کے نام لکھنے یا رکھنے پر بھی ہنگامے برپا ہو جاتے ہیں عموما بڑے لوگوں کے نام پر شاہراہوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔بڑوں سے مراد تو آپ کو پتا ہی ہے۔اب دیکھئے ناں ٹکسالی روڑ کا نام بھی کتنا عجیب ہے ۔کچھ بڑوں نے ٹکسالی کے ایک طرف شاہی محلہ بنا دیا اور دوسری طرف بادشاہی مسجد۔ سڑکوں کے نام رکھنے پر بھی بڑے فساد ڈلتے ہیں۔سیاستدان ،شاعر ادیب، افسر بابو ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی ایک سڑک کا نام اس سے یا اس کے ابا جی کے نام سے منسوب ہوجائے۔تاہم جس کی لاٹھی بڑی ہوتی ہے اسی کا نام سڑک پر کنندہ ہوجاتا ہے۔سڑکوں کے افتتاح کرنے پر بھی بڑے شغل لگتے ہیں۔ایک ہی سیاسی جماعت کے دیوانے پروانے الگ الگ اپنے نمبر ٹانگنے کے چکر میں ہوتے ہین تو ایم پی اے اور ایم این اے بھی اسی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ پہلے میں اور پہلے میں نئی سڑک کا افتتاح کرونگا لیکن عام لوگوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سڑک کا باقاعدہ افتتاح ہوا ہے یا نہیں انہیں تو شکر پاروں سے غرض ہوتی ہے یا سڑک کھلنے سے ۔سڑک تو سڑک ہے اس نے کہاں جانا ہے ۔مسافر آتے جاتے رہتے ہیں اور ہم چلتے ہیں اسی نیلگوں سیاہی مائل تارکولی سڑک پر جہاں سے ہم۔چلے تھے۔جو آج بھی زمین کی چھاتی سے کسی شیر خوار کی مانند لپٹی ہوئی ہے۔