کیا کہا! میں نے کبھی تم سے محبت نہیں کی؟
تم نے اس آخری جملے کی وضاحت نہیں کی
جھوٹ کی ہم نے کسی طور وکالت نہیں کی
جی نہیں ،نہیں کی اور کسی صورت نہیں کی
ہم تو وہ ہیں کہ زمینوں کی محبت کے سبب
ظلم تو سہہ لیا پر گاؤں سے ہجرت نہیں کی
اپنی اوقات میں رہنا ہی یہاں بہتر ہے
ورنہ پھرکہتے پھرو گے مری عزت نہیں کی
ایک ہی شہر میں رہ کر بھی نہیں مل پاتے
میں نے کوشش نہیں کی اس نے بھی زحمت نہیں کی
جانے والوں کو پلٹ کر نہیں دیکھا میں نے
ایک مدت سے کسی چیز کی حسرت نہیں کی
کچھ تو اس سرد مزاجی کا سبب ہوگا ہی
اب تو اشعار میں بھی اس سے شرارت نہیں کی
جانے یہ صبر ہے، ڈر ہے کہ حکومت کے خلاف
میرے گاؤں کے کسانوں نے بغاوت نہیں کی
کیسے مانوں کہ اسے اوج ملا ہے اشرف
اپنےماں باپ کی جس شخص نےخدمت نہیں کی