شبنم جبیں پہ ہو تو چمن مانگنے کو میں
مرنا کسی کا ہو تو کفن مانگنے کو میں
یہ حرف شب تو آج سیاہی میں ڈھل گئی
اب کس کے پاس جاوں کرن مانگنے کو میں
جو کچھ تھا اپنے پاس وہ ان کی نذر ہوا
جاوں کہاں یہ تاب سخن مانگنے کو میں
صرف دعا کو ہاتھ مگر کس لیے اٹھیں
وہ بے نیاز اور دہن مانگنے کو میں
تقدیر کس کے در پہ لے آئی ہے مجھ کو آج
کیوں گھر لٹا کے آیا صحن مانگنے کو میں
کیا ضد ہے دل کی کس لیے یہ بار بار ہے
خوشبو کو ڈھونڈنے کی سجن مانگنے کو میں
نظریں رہیں فلک پہ کہیں اے تقی حزیں
خوشبو کے راستے میں دلہن ڈھونڈنے کو میں