سب توڑ دیں حدود ، مرا دل نہیں لگا
زندان تھا وجود ، مرا دل نہیں لگا
من میں منافقت لئے پڑھتی رہی نماز
تھے نام کے سجود ، مرا دل نہیں لگا
اے رب دو جہان ترے اس جہان میں
کوشش کے باوجود ، مرا دل نہیں لگا
اس بار شوقِ وصل کی لذت بھی کھو گئی
طاری رہا جمود ، مرا دل نہیں لگا
دنیائے رنگ و رس سے بھی اکتا گئی ہوں میں
کیا رقص کیا سرود ، مرا دل نہیں لگا
میں جارہی ہوں چھوڑ کے اے ساکنان ِ شہر
یہ قریۂ نمود، مرا دل نہیں لگا