مرا تخیل و مرا ہے کچھ مزاج الگ
مرا کلام مرا دنیا کا کام کاج الگ
میں جس زمانے میں زندہ ہو حضرتِ والا
ہے اس زمانے کا اپنا ہی اک رواج الگ
منافقوں کو بڑھاتا ہے خوب رفعت میں
میں ایسے دیس میں ہوں جس کا ہے سماج الگ
طبیب آپ ہی خود بن گیا مریضِ غم
پتا چلا کہ ہے اس غم کا کچھ علاج الگ
لگاۓ عشق کی محفل جو آپ بیٹھے ہیں
ہمیں یوں لگتا ہے کھاتے ہیں جی اناج الگ
غریبِ شہر ہے گرچہ غریب پر تو دیکھ
کہ اس کے سر پہ ہے رکھا خدا نے تاج الگ
بہت بدل سا گیا ہوں مجھے یقیں آیا
جو اپنے کل پہ نظر کی لگا ہے آج الگ
ملے تمہیں جو اگر کھیل سے ذرا فرصت
تو رکھنا اپنی جوانی میں اپنی لاج الگ
اگر عمل ہو ترا علم پر ترے خود کے
کرے گا اپنے زمانے میں سب پہ راج الگ
زباں خموش ہوئی اور بھر گٸی آنکھیں
مرے نصیب نے مجھ میں کیا ہے کاج الگ
یہ زندگی ہے خدا کی عطا مگر پھر بھی
کیوں دے رہے ہیں اسے کاٹنے کا باج الگ
ہمارے شہر میں تاریکیوں کا ڈیرا ہے
یہاں جو جلتا ہے جلتا ہے وہ سراج الگ
ہے اب تھکن سی ہوئی قلب کو مرے جاناں
تو ہی دے وصل سے کر آ ذرا مساج الگ
نہ میں ہوں کافر و ذمی و مجرمِ دوراں
بلا سبب ہی لیا مجھ سے ہے خراج الگ
امیر ہو کہ فقیر و مکینِ دل ہی ہو
سبھی سے لیتے ہیں یہ حکمراں بیاج الگ
اسامہ لکھ کے سنا عاشقوں کو ان کا غم
لگا ہے عاشقوں کا آج تخت و تاج الگ