کر تو ثابت مری خطا کیا ہے
میری جانب یوں گھورتا کیا ہے
زندگی ہے یہ بلبلے جیسی
اور اس کے سوا بتا کیا ہے
فرق ہے رتبے اور منصب کا
بادشاہ کیا ہے اور گدا کیا
صرف دھوکا فریب رسوائی
مجھ کو دنیا سے اور ملا کیا ہے
عیب اپنے تلاش کر پہلے
دوسروں میں یوں جھانکتا کیا ہے
عشق کرتا نہ وہ شہ دیں سے
جانتا کون پھر خدا کیا ہے
سچ کو باندھا ہے میں نے شعروں میں
اور اس کے سوا کہا کیا ہے
صرف آئینہ سامنے رکھا
اور میں نے بتا کیا کیا ہے
وہ ہے شہ رگ سے بھی قریب ترے
ساری دنیا میں کھوجتا کیا ہے
یاد کر آخرت کو اے ناداں
ایسے مستی میں جھومتا کیا ہے
دور جو مجھ سے ہو گۓ ہو تم
یہ تو بولو مری خطا کیا ہے
میری یادوں میں آج بھی ہے وہ
وہ جدا ہوکے بھی جدا کیا ہے
حق باطل کی جنگ سے سیکھو
صبر کیا چیز ہے رضا کیا ہے