آلامِ روزگار میں جیون بسر ہوا
میرا مکاں، مکان رہا ہے نہ گھر ہوا
بدلے ہوئے ہیں اب تو مرے خدوخال بھی
کیا میں ترے مزاج کا اے کوزہ گر! ہوا؟
ہر دائرے کے گرد ہے اکاور دائرہ
مرضی سے جی سکا ہوں نہ مرضی سے مر ہوا
خوابوں نے میرا امن سبوتاژ کر دیا
مجھ سے مرے گمان کا صحرا نہ سر ہوا
حسن عطا کے ساتھ وہ مرہم نگاہیاں
سارے کا سارا شہر ہی دریوزہ گر ہوا
جب جب زمانہ دھوپ چھڑکنے پہ آگیا
تیرا خیال جھوم کے آیا شجر ہوا
کھلتی ہے روز آنکھ پرندوں کے شور سے
کچھ ایسے باغ باغ یہ دل کا نگر ہوا
رہتا ہے راستوں ہی سے میرا مکالمہ
جب سے تمھارا عکس مرا ہم سفر ہوا
میں تو حصارِ ذات میں رہتا رہا شہیر
بیرونِ ذات کون کہاں معتبر ہوا