مسئلہ ہے یہ تو سارا عشق کی جاگیر کا
میری جانب ہی نشانہ ہے ترے ہر تیر کا
اِس قدر کیوں ناسمجھ ہمکو سمجھ لیتے ہیں آپ
پیڑ گولر کا لگایا کہتے ہیں انجیر کا
جانے کیا کیا سوچ کے میدان میں اُترا ہے تُو
پانی تو اُترا ہوا ہے تیری اِس شمشیر کا
کیوں ترے مضمون میں کوئی چمک دِکھتی نہیں
لفظ تو ایک ایک روشن ہے تری تحریر کا
اس قدر بھی بھولا پن اچھّا نہیں ہوتا جناب
رُخ بدل کر دیکھئے تو آپ اِس تصویر کا
کل بھکاری تھا مگر اب بھیک خود دینے لگا
کچھ نہ کہہ پاؤگے طالبؔ کھیل ہے تقدیر کا