شناوروں نے کہا ہے گہر نکل آئے
تمہاری آنکھ سے گر رہگزر نکل آئے
زمین دل میں محبت کے بیج بوتے ہی
تعلقات کے میٹھے ثمر نکل آئے
پلٹ کے دیکھا جو اوراق زندگی میں نے
کہیں پہ عیب کہیں پر ہنر نکل آئے
تمہارے گھر میں تو جلتے تھے مفلسی کے چراغ
ذرا سی آئی یہ دولت تو پر نکل آئے
یہاں غریب مفلس و مجبور لوگ رہتے ہیں
بھٹک کے راستہ کیسے ادھر نکل آئے
گھروندا چھوڑا تو بیمار ماں نے رو کے کہا
ابھی سے کس لئے بچوں کے پر نکل آئے
یقین کیسے ہو عاطفؔ بھروسہ توڑے جو
ٹٹولا جائے تو وہ معتبر نکل آئے