دل نے چاہےتھے پهول آنگن میں
اگ رہے ہیں ببول آنگن میں
بھوک کے جبر سے ہوۓ ہیں دفن
جانے کتنے اصول آنگن میں
تیری یادوں کابوجھ اٹھاۓ ہوۓ
پهر رہا ہوں ملول آنگن میں
وه گھنا پیڑ کٹ گیا آخر
تھا جو شاید فضول آنگن میں
ایک امید ہے کہ ہوگا امین
راحتوں کا نزول آنگن میں