وہ خواب میں جب اکیلا دکھائی دیتا ہے
فلک پہ چاند بھی تنہا دکھائی دیتا ہے
ہیں مدّ و جزر سی کیفیتیں کناروں پر
جو عکس جھیل میں اس کا دکھائی دیتا ہے
نقوش و قامت و قد ہو بہو ہیں اس جیسے
دوپٹہ سبز بھی اس سا دکھائی دیتا ہے
اُدھر منارہ ، ادِھر کچھ شکستہ گنبد و طاق
یہ خانقاہ کا ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے
نہ جانے رات پرندوں پہ ایسی کیا گزری
خموش رین بسیرا دکھائی دیتا ہے
سفید برف کی چادر ہے کوہ ساروں پر
تو وادیوں میں دھندلکا دکھائی دیتا ہے
یہ معجزہ ہے کسی تشنہ لب کی نظروں کا
فرات آج جو پیاسا دکھائی دیتا ہے
نظر میں چھا گیا ایسا کسی کی آنکھوں کا رنگ
کہ زرد رت میں بھی سبزہ دکھائی دیتا ہے