لہجہ شیریں تو غضب حسن نظر رکھتی ہے
میری ممتاز غزل کتنے ہنر رکھتی ہے
نا اُمیدی کی سیہ رات بھی ڈھل جائے گی
"آرزو اپنی نگاہوں میں سحر رکھتی ہے"
دل میں حسرت لئے آمد کی خبر پر تیری
ایک ٹک در پہ یہ دیوانی نظر رکھتی ہے
سنگریزوں نے اڑائے ہیں مذاقِ وحشت
چاہتِ قیس کہ لیلیٰ کی خبر رکھتی ہے
تعب سہتی ہے سمندر کا مسلسل لیکن
پھربھی آغوش میں سیپ اپنے گہر رکھتی ہے
اُسکی شہرت ہے بہر سمت مسیحائی کی
زخم بھر جاتے ہیں انگشت جدھر رکھتی ہے
کام بن جاتے ہیں بگڑے ہوئے آناً فاناً
ماں کی بے لوث دعااتنا اثر رکھتی ہے
اس نے کاسے میں محبت کا صلہ مانگا ہے
اس سے کہنا کہ ذرا دیر ٹھہر، رکھتی ہے
تونے جو مجھ کو دیا میں نے بھی لوٹایا وہی
پھر گلہ کیوں کی زبا ں زہر سے تر رکھتی ہے
کوئی منزل کا پتہ اور نہ ہی رستے کی خبر
پھر بھی یہ ذات مری شوقِ سفر رکھتی ہے
تجربہ جذبہُ و احساس ملا کر الماس
خوشبو اشعار میں رکھتی ہے شرر رکھتی ہے