میں تو مریضِ عشق ہوں مجھ کو دعا نہ دو
میرے طبیب اب مجھے کوئی دوا نہ دو
مشکل سے اک غریب کا روشن ہوا ہے گھر
چلنے دو یہ چراغ خدارا بجھا نہ دو
وعدہ کیا ہے لوٹنے کا گر مگر کے ساتھ
ہے چھوڑنا مجھے تو کوئی آسرا نہ دو
اب تو رہائی دو مجھے تم اپنی قید سے
مجھ کو مرے گناہ کی اتنی سزا نہ دو
آلِ رسولؐ سے ہے محبت اگر تمہیں
خلقِ خدا کو پھر سنو کوئی دغا نہ دو
دل کے غموں کی تاب نہیں لا سکی تھی میں
اب جو گزر گیا ہے اسے تم ہوا نہ دو
مجھ کو ہے ڈر یہی کہ محبت کی راہ میں
تم پر خلوص کوئی بھی رشتہ گنوا نہ دو