رہی جو خود یہاں اس کی سپردگی یونہی
دِلِ حزیں کو ہے حاصِل یہ تشنگی یونہی
بڑی خوشی سے گذاری یہ زِندگی ہم نے
ہمِیں سے تھی جو کِسی کی وہ دِلگی یونہی
سمجھ کے خوش ہیں ابھی اسکو آپ اپنا سا
دِکھا رہا ہے جو فرعون سادگی یونہی
بڑے ادق ہیں مراحل جو طے کیے اِس نے
مگر ہے ذہنِ بشر کی درندگی یونہی
خزاں رسیدہ چمن میں کِہا یہ غنچوں نے
گلوں کے رخ پہ ہے دیکھی شگفتگی یونہی
غلام قوموں کے لیڈر غلام ہوتے ہیں
دِکھاوے کی یہاں کرتے ہیں بندگی یونہی
گناہ ہم سے وہ سر زد ہوا نہیں اب تک
معاف آپ جو کرتے ہیں پیشگی یونہی
وہ حسن اور ہے جِس نے یہ موند لیں آنکھیں
چھلک اٹھی یہاں کیونکر برہنگی یونہی
مِلے جو جانِ حیا اے صبا اسے کہنا
اگر چہ زِندہ ہے بےکل ہے زِندگی یونہی