سکوت مرگ طاری ہو تو بستر بول پڑتے ہیں
کہ انساں ہی اگر چپ ہو تو پتھر بول پڑتے ہیں
جہاں ہو عدل پر پہرہ رہے بندوق کا سایہ
وہاں پھر وقت کے سوئے قلندر بول پڑتے ہیں
ستم جب حد سے بڑھ جائے مزاحم جب نہ ہو کوئی
تو ایسے میں کبھی خود ہی ستمگر بول پڑتے ہیں
کہ جب بھی وقت کی آواز پر اٹھتا نہ ہو کوئی
کہ دریا بھی اگر چپ ہوں سمندر بول پڑتے ہیں
ہتھیلی کی لکیروں سے نہ ہو معلوم گر کچھ بھی
زباں خاموش رہتی ہے مقدر بول پڑتے ہیں
اگر جب خوف طاری ہو قلم خاموش ہو جائیں
تو ایسے میں فقط آغا تصور بول پڑتے ہیں
**