کیا خبر تھی کہ یوں طوفان بپھر جائے گا
کر کے برباد مرا گھر وہ گزر جائے گا
تیری نظروں سے بھلا بچ کے کدھر جائے گا
تیرا غم خوار تو موقع پہ ہی مر جائے گا
شدتِ غم میں بھی اُمیدِ بہاراں رکھئے
گو برا وقت ہے لیکن یہ گزر جائے گا
گو سجانا تو بری بات نہیں شیش محل
وقت کے ساتھ مگر یہ بھی بکھر جائے گا
اپنے بچوں سے جو رکھتا ہے محبت دل میں
"وہ پرندوں کی طرح شام کو گھر جائے گا"
تیری تصویر مرے سامنے رکھ دے کوئی
ایک دریا ہے جو اشکوں کا، اتر جائے گا
کیا مجاہد کا بگاڑیں گے اندھیرے رستے
لالٹین اپنی جلائے گا گزر جائے گا
**