گلے شکوے تو ہمیں ایک زمانے سے رہے
لب پہ اب نام تو ہر ایک کا لانے سے رہے
سر اٹھانے سے رہے آنکھ ملانے سے رہے
ہم کہ موجود ہی سجدے کے بہانے سے رہے
روز جاتے بھی رہے ڈرتے بھی جانے سے رہے
ایسی گلیوں میں بھلے لوگ تو آنے سے رہے
زندگی ہم کو گھسیٹے لیے جاتی ہے کہیں
اپنی لاش آپ ٹھکانے تو لگانے سے رہے
انھیں دو صدقہ و خیرات انھیں دو نذر و نیاز
مولوی لوگ ہیں دنیا تو کمانے سے رہے
شاعری کی سمجھ اللہ تجھے بخشے کہ ہم
کھل کے ہر بات تو محفل میں بتانے سے رہے
دشت آباد میں نقلی نہیں ملتی کوئی چیز
غم ہی کھائیں گے یہاں زہر تو کھانے سے رہے
سامنے ان کے ہیں اشعار ہمارے
چیر کے دل تو انھیں ہم بھی دکھانے سے رہے
***