اے مری ذات کے سکوں آجا
تھم نہ جائے کہیں جنوں آجا
رات سے ایک سوچ میں گم ہوں
کس بہانے تجھے کہوں آجا
ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا
میں وہیں پر ہوں سرنگوں آجا
یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ ؟
ہو چلا وہ بھی نیلگوں آجا
اس سے پہلے کہ میں اذیت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں آجاد
دیکھ میں یاد کر رہی ہوں تجھے
پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آجا