میں تو بیمار تھا نظروں میں سماتا کیسے؟
سر اٹھاتا بھی تو آنکھوں کو ملاتا کیسے؟
میری بگڑی کو بناتا تو بناتا کیسے؟
اُس کو مطلب نہ رہا تھا تو ستاتا کیسے؟
فرش پر عرش نشیں بیٹھ گئے تھے ایسے
لاکھ منت بھی جو کرتا تو اٹھاتا کیسے؟
حسن و احسان کا مارا تھا سو خاموش رہا
باعثِ ترکِ ملاقات بتاتا کیسے؟
جام ٹوٹا تھا مرے ہاتھ سے صدیوں پہلے
دل میں آتا بھی گماں اس کا تو آتا کیسے؟
***
درد و غم ، رنج و الم ، یہ دوریاں ، مجبوریاں !
اُن کے جانے سے ہمیں کیا کیا عطا ہونے لگا
چل پڑا میں ننگے پاؤں خار زاروں میں منیبؔ
خون میرا رہبروں کا رہنما ہونے لگا
***
ہاتھ رکھتا ہے تو ہر زخم صدا دیتا ہے
یہ مسیحا ہے جو شعلوں کو ہوا دیتا ہے
کانچ ہاتھوں میں اُٹھا رکھے ہیں پتھر اُس نے
مجھ کو ہر موڑ پہ وہ شوخ دغا دیتا ہے