ماں کی محبت ایسی خالص ہے کہ پنتیس سال بعد بھی وہ اپنے چالیس سالہ بیٹے کا دکھ پانچ سال کی عمر کے بچے کا سا ہی محسوس کرتی ہے.قصہ کچھ ہوں کہ پنتیس برس قبل ماں اور اس کا پانچ سال کا بیٹا بازار جاتے ہیں۔سامان سودا سلف لینے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ گھر سے بازار کا فاصلہ کوئی دو میل ہے۔ واپسی کیلئے تانگے پر سوار ہوتے ہیں اور اپنے گھر کو روانہ ہوجاتے ہیں۔بس بھیا یہیں روک دو نہر کے پُل پر ..(بچے کی ماں)پُوچ... پُوچ ... کوچوان گھوڑے کی لگام کھینچتے ہوئے منہ سے آواز نکالتا ہے بچے کی ماں بٹوے سے ایک روپیہ نکالتی ہے اور تانگے والے کو دے دیتی ہے۔ کوچوان رقم جیب میں ڈالتے ہوئے تانگہ آگے بڑھا دیتا ہے ماں ابنے بیٹے کا ہاتھ تھام کر سڑک کے دونوں جانب نظر دوڑاتی ہے اور سڑک کو خالی پاکر سڑک پار کرکے اپنے گھر کو جانے والے راستے کی طرف بڑھتی ہے کہ اچانک اس کی نظر نہر کنارے کھڑے ایک ٹھیلے پر پڑتی ہے جس پر تازہ خوبانیاں بڑے قرینے سے سجی ہوئی ہیں۔گھر کا فاصلہ ابھی دو فرلانگ کے قریب ہے جو انہیں پیدل طے کرنا ہے۔ ماں کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ اس کے بیٹے کا پیٹ کافی دیر سے خالی ہے اسے بھوک لگی ہوگی کیوں نا اسے خوبانیاں ہی کھلا دوں تاکہ وہ گھر تک پہنچتے ہوئے کہیں بھوک سے نڈھال نہ ہو جائے۔بھیا کیا بھاؤ ہے؟بی بی چھ روپے کی ایک سیر! لیکن بازار میں تو چار روپے کی ایک سیر بک رہی تھیں؟ بی بی وہ ہلکا مال ہے یہ اچھی والی ہیں۔ ٹھیلے والااچھا ایک پاؤ دے دو (بچے کی ماں) ٹھیلے والا خوبانیاں تولنے لگتا ہےبھیا خراب نہ دینانہیں بی بی ایک ایک دانہ چن چن کر لگایا ہے(ٹھیلے والا)ٹھیلے والا خوبانیاں تول کر موٹے کاغذ سے بنے ہوئے لفافے میں ڈال کر بچے کی ماں کو پکڑاتا ہے۔ وہ بٹوے سے دو روپے نکال کر ٹھیلے والے کو دیتی ہے۔ ٹھیلے والا سلوکے کی جیب سے اٹھنی نکالتا ہے اور بچے کی ماں کو تھما دیتا ہے قریب ہی نہر کنارے ایک پانی کا نلکا ہے وہ خوبانیاں نکال کر اچھی طرح دھوکر واپس لفافے میں ڈالتی ہے اور لفافہ اپنے بیٹے کو تھما کر کہتی ہے لو بیٹا کھالو دوپہر کا وقت ہے گھر کو جانے والی سڑک بالکل سنسان ہے۔ اکا دکا کوئی شخص بائیسکل پر آتا جاتا دکھائی دیتا ہے اس لئے ماں نے بچے کا ہاتھ چھوڑ دیا ہے وہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور ابھی پہلی خوبانی ہی کھانے جا رہا ہے کہ ماں کو خیال آیا کہ گھر جاکر بیٹے کو خوبانی کا مغز نکال کر دکھائے گی تو وہ حیران ہوگا یہ سوچ آتے ہی اس نے بیٹے سے کہا: بیٹا گٹھلیاں نہ پھینکنا۔ اُس دور میں کوئی اس طرح کی تحقیق تو نہیں ہوئی تھی کہ خوبانی کا مغز مضر صحت ہے اس لئے ہر کوئی کھا لیتا تھا آج کل بھی جسے نہیں معلوم وہ کھا لیتا ہےاور جسے معلوم ہے وہ بھی کھاتا ہے خود نہیں تو کچھ سمجھدار دکاندار مغز بادام میں 20 فیصد مغز خوبانی ملا کر کھلا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں گھر آگیا، گھر پہنچ کر بچے کی ماں نے برقع اتارا بڑی بیٹی سے پانی لانے کو کہا پانی پیا اور جب کچھ جان میں جان آئی تو بیٹے سے مخاطب ہوئی بیٹا: ادھر آؤ اور اشارتاً خوبانیوں والا لفافہ دکھانے کو کہا، بمشکل دو یا تین خوبانیاں ہی کھائی ہوں گی لیکن یہ کیا لفافے میں گٹھلی تو ایک بھی موجود نہیں تھی۔ بیٹا! میں نے تمہیں کہا تھا کہ گٹھلیاں مت پھینکنابیٹا: ہاں تو ماں میں نے کب پھینکی ہیں؟ ماں: کہاں ہیں مجھے تو اس میں کہیں نظر نہیں آرہیں!بیٹا: ماں وہ بہت مشکل سے نگلی ہیں میرا تو گلا بھی درد ہونے لگ گیا ہے یہ سننا تھا کہ ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے، میرے بھولے ادھر آ! ماں نے گود میں بٹھایا، گلے سے لگایا، ماں کے آنسو تھے کہ رکنے کو ہی نہیں آرہے تھے، وہ بار بار بیٹے کو گلے لگاتی اور روتے ہوئے کہے جاتی "میرا بھولا پُتر" میں یہ کہنا تو بھول ہی گئی تھی کہ گٹھلیاں لفافے میں ڈالتے جانا۔اس واقعے کو پنتیس برس گزر چکے ہیں لیکن آج بھی اگر ماں یہ واقعہ سناتی ہے یا کہیں بیٹھے بٹھائے یاد آجاتا ہے تو ماں کی آنکھوں سے آج بھی آنسو چھلک جاتے ہیں اور وہ پنتیس سال پہلے کے اس واقعے کو ایسے محسوس کرتی ہے جیسے آج بلکہ ابھی حلق سے گٹھلی نگل رہی ہو۔ اب جبکہ بیٹا قریباً چالیس برس کا ہو چکا ہے لیکن ماں کی محبت اسے آج بھی بچہ رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔