اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔ اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کاجنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثرکیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف ومقبول ہوئی۔
صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور اُدبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہل زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازعہ اسی دور کی پیداوار ہے۔ ایرانی اورہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہل ایران کو حاصل ہے۔ اس رویے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر وخیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ سراج الدین علی خاں آرزونے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعرگوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کوان کے گھرپر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر ’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کردی اوران کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواج زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔
اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کایہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروف تہجی کے اعتبارسے ترتیب دیاگیاتھا جس کااثریہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ شمالی ہندمیں جب اردو شاعری کا پہلا دورشروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے... لہٰذا اردو شعرانے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعل راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’دیوان ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کاحصہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال وجنوب کے ادبی وتہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل وتدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوان ولی کے زیر اثر پروان چڑھی‘‘
(تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر جمیل جالبی،جلد دوم حصہ اول ص۱۹۱)
ایہام گوئی شمالی ہندمیں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔
ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘ اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔ ‘چونکہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑجاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔
ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنی بعیدسے ہو۔ نکات الشعر امیں میرؔ کے الفاظ یہ ہیں :
’’معنی ایہام اینست کہ لفظے کہ بروبناے بیت بوآں دومعنی داشتہ باشدیکے قریب ویکے بعید وبعید منظور شاعر باشد وقریب متروک او‘‘ (نکات الشعرا،میر تقی میر،مرتبہ ڈاکٹر محمود الہی،ص ۱۶۳)
ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ایہام کے معنی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنی میں سے ایک قریب ہوں۔ دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔ ‘‘
(تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر جمیل جالبی،جلد دوم حصہ اول ص۱۹۱)
ایہام کی اقسام
ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردو کے مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ ایہام خالص:
یعنی جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں ایک قریب کے اور ایک دورکے اور شاعر نے دور کے معنیٰ مراد لیے ہوں۔
2۔ ایہام پیچیدہ :
جہاں ایک لفظ کے دومعنی یا دو سے زیادہ معنی ہوں اور تمام معنی کم وبیش مفید مطلب ہوں عام اس سے کہ شاعر نے کون سے معنی مراد لیے ہوں۔
3۔ ایہام مساوات :
جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں دونوں برابر کے کم وبیش یا بالکل قوی ہوں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوکہ شاعر نے کون سے معنی مراد لیے تھے۔ ‘‘
(تعبیر کی شرح،شمس الرحمان فاروقی،طاکادمی بازیافت، کراچی، پاکستان،۲۰۰۴،ص۱۱)
ایہام گوئی کی یہ صنعت عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو سب ہی زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ ہندی میں یہ صنعت سنسکرت سے آئی اور سنسکرت میں اس صنعت کو ’ شلیش ‘ کہا جاتا ہے اور یہی نام ہندی میں بھی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ :
’’شلیش سنسکرت کا لفظ ہے اور سنسکرت میں اس صنعت کی کئی قسمیں ہیں۔ مگران میں سے خاص دو ہیں سبہنگ اور انہنگ۔ سبہنگ میں لفظ سالم رہتا ہے اور ابہنگ میں لفظ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ صنعت پیدا کی جاتی ہے۔ ہندی میں یہ سنسکرت سے آئی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے۔ ‘‘ (اردو شاعری میں ایہام گوئی،مولوی عبدالحق،بحوالہ اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک،ملک حسن اختر ص۱۳۱)
اردو میں ایہام کی صنعت کہاں سے آئی آیا یہ فارسی سے آئی یا ہندی سے۔ بیشتر ناقدین اردو میں ایہام گوئی کا سہرا ہندی
دوہروں سے ہی جوڑتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا بھی یہی ماننا ہے کہ اردو شاعری میں ایہام گوئی کی روایت ہندی شاعری کی رہین منت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’یہ خیال قرین صحت معلوم ہوتاہے کہ اردو ایہام گوئی پر زیادہ تر ہندی شاعری کا اثر ہوا اور ہندی میں یہ چیز سنسکرت سے پہنچی۔‘‘ (اردو شاعری میں ایہام گوئی،مولوی عبدالحق،بحوالہ اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ،ڈاکٹر منظر اعظمی،ص۵۵)
ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کا نقطۂ نظر اس سے کچھ مختلف ہے۔ وہ اٹھارہویں صدی میں فارسی گو شعراکی دربار میں رسائی اور اس کے اثرات کو بنیاد بنا کریہ کہتے ہیں کہ اردو شاعری میں ایہام کی صنعت فارسی سے آئی ہے۔ نور الحسن ہاشمی کی اس رائے سے قاضی عبد الودود کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا۔ ڈاکٹر محمد حسن نے بیچ کی راہ نکالتے ہوئے ایہام گو شعرا پر فارسی ہندی دونوں کے اثرات کی وکالت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’غرض شمالی ہندمیں اردو ادب کی ابتدا فار سی اور ہندی کی دوہری ادبی روایات کے سائے میں ہوئی ۔ فارسی نے اردو ادب سے بہت کچھ اخذ و اختیار کیا۔ اس کی حسن کاری لفظوں کے دروبست، اضافت و تراکیب، شاعرانہ لب ولہجہ اور ایک مخصوص افتاد طبع اور شائستگی کا ایک خاص تصور لیا۔ ہندی شاعری سے بالواسطہ کئی اثرات پڑے۔ ‘‘ (دہلی میں اردو شاعری کا فکری پس منظر،ڈاکٹرمحمد حسن،ص۳۴۴)
لیکن ڈاکٹر منظر اعظمی مختلف ایہام گو شعرا کے کلام میں مستعمل ہندی الفاظ کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اگر ایہام گو اردو شعرا کے اشعار پر نظر کی جائے توفارسی لب ولہجہ اور اثرات کم اور ہندی یا بھاشائی لب ولہجہ اوراثرات نسبتاً زیادہ ملتے ہیں۔ فارسی اثرات کے تحت بیشتر شعر رعایت لفظی کی نوعیت کے ہیں جب کہ ہندی اثرات کے تحت شعر بیشتر ایہامی ہیں ‘‘۔ (اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ،ڈاکٹر منظر اعظمی،ص۵۴)
ایہام گوئی کی شروعات
اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے وہ سب سے پہلے شاعرہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔
ایہام گوئی کی ا مس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ایہام کی عکاسی بھر پور ملتی ہے:
لیا ہے گھیر زلفوں نے یہ تیرے کان کا موتی
مگر یہ ہند کا لشکر لگا ہے آستارے کو
ہر شب تری زلف سے ’’مطول‘‘ کی بحث تھی
تیرے دہن کو دیکھ سخن ’’مختصر‘‘ کیا
موسیٰ جوآکے دیکھے تجھ نورکاتماشا
اس کوں پہاڑ ہوئے پھر طور کا تماشا
ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطا کیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اوران کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کی بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے البتہ اہم ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدین حاتم وغیرہ کانام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے نمونے کے طور پر کچھ اشعار دئے جاتے ہیں :
ہوئے ہیں اہل زر خوابان دولت خواب غفلت میں
جسے سونا ہے یاروں فرش پہ مخمل کےکہہ سوجا
…
نیل پڑ جاتا ہے ہر بوئی کا اے نازک بدن
تن اوپر تیرے چکن کرنا ہے گویا کارِ چوب
(آبروؔ)
نظر آتا نہیں وہ ماہ رو کیوں
گزرتا ہے مجھے یہ چاند خالی
…
نہ دیتا غیر کو نزدیک آنے
اگر ہوتا وہ لڑکا دور اندیش
(یقینؔ)
ہوں تصدق اپنے طالع کا وہ کیسا بے حجاب
مل گیا ہم سے کہ تھا مدت سے گویا آشنا
(حاتمؔ)
قوس قزح سے چرچہ کرانا تھا تجھ بھواں کا
شاید کہ سر بھرا ہے اب پھر کر آسماں کا
(شاکرناجیؔ)
اردو میں ایہام کی صنعت کہاں سے آئی آیا یہ فارسی سے آئی یا ہندی سے۔ بیشتر ناقدین اردو میں ایہام گوئی کا سہرا ہندی اردو شاعری میں ایہام گوئی کا یہ دور تقریبا ۲۵۔ ۳۰ برسوں کو محیط ہے۔ اس صنعت نے بہت سے شعرا کو متاثر کیا اور اس سے اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں بیش بہا اضافہ ہوا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسے باقاعدہ ایک زبان بننے اور اس سے پیکر تراشی میں نمایاں مدد ملی۔ لفظوں کی صوری اور معنوی دونوں صورتوں میں کتنا تنوع ہوسکتا ہے اور اس کے مضامین کی کتنی جہتیں ہوسکتی ہیں یہ ساری چیزیں اسی صنعت ایہام کی دین ہیں۔
ایہام گو شعرا کے کلام کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اشعار محض سطحی یا الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں تھے بلکہ ان اشعار میں درس و عبرت کے پہلو کے ساتھ ساتھ کئی تاریخی، معاشرتی اور شخصی حوالے بھی ملتے ہیں۔ ویسے تو یہ حوالے بعد کے شعرا کے کلام میں بھی کثرت سے ملتے ہیں لیکن ایہام گوئی کی بدولت دوسرے متعلقات اور مناسبات کی شمولیت نے ان حوالوں کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔
ایہام گو شعرا نے اردو شاعری کی بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ ایک عام بول چال کی زبان جو ریختہ کہلاتی تھی اسے با قاعدہ ایک زبان کی حیثیت عطا کرنے میں ایہام گو شعرا کی کاوشیں اردو شاعری کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی طرح اردو شاعری میں بعض اصناف کی ایجاد کا سہرا بھی ایہام گو شعراکے سر جاتا ہے۔ سب سے پہلا واسوخت شاہ حاتم نے کہا۔ اولین شہر آشوب بھی ان کے ہی کے قلم کی رہین منت ہے۔ رباعیات کو رواج دینے میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ مخمس، مسدس، ترکیب بند، مراثی، قصائد اور ساقی نامے بھی ایہام گو شعرا کی دین ہے۔
ان خصوصیات کے باوجود ایہام گوئی کی صنعت سے اردو شاعری کو کافی نقصان بھی پہنچا۔ اس صنعت کے استعمال سے شاعری تصنع کا شکار ہوگئی اور شاعر جذبے اور احساس کی بجائے الفاظ کے دروبست میں الجھ کر رہ گئے اور اس طرح شعری بے ساختگی اور جذباتی عظمت مجروح ہوتی گئی۔