ایک دفعہ ضرور بضرور پڑھیںایک شاگرد اپنے استاد سے الجھ پڑا. اس کو مخمصے کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا. استاد نے کافی تشریح کی مگر شاگرد مطمئن نہ تھا. پھر استاد نے کہا کہ میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں. شاید تمہیں مخمصے کی سمجھ آ جائے. " ناظم آباد میں اے او کلینک کے سامنے والی سڑک پر ایک باپ اور اس کا بیٹا موٹر سائیکل پر جارہے تھے ۔ ان کے آگے ایک ٹرک تھا جس میں فولادی چادریں لدی تھیں ۔ اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر اڑی اور سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آئی۔ دونوں کی گردن کٹ گئی ۔ لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لے کر ڈاکٹر محمد علی شاہ کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر شاہ نے سات گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے دونوں سر دھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں زندہ بچ گئے ۔دو ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے. گھر والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔ دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو ایک ہنگامہ مچ گیا. باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑ سے لگ گیا تھا" شاگرد منہ کھولے بہت حیرت سے سن رہا تھا۔ " گھڑمس پیدا ہوگیا کہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ ؟ اگر وہ شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ تو سُسر کا ہے. اب کیا ہوگا. ادھر یہ گھڑمس کہ ماں اگر شوہر کے سر ساتھ رہے تو دھڑ بیٹے کا ہے ۔ اگر شوہر کے دھڑ کے ساتھ رہے گی تو سر تو اس کے بیٹے کا ہے۔ گھر کی صورتحال انتہائی کشیدہ تھی ۔بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہے تو وہ نیک بخت کہتی کہ مجھے ابا جان کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے ۔ سٗسر اگر اپنی بیوی کے پاس اس لئے نہیں پھٹکتے کہ بیٹے کے دھڑ اور ماں یعنی ان کی بیوی میں ابدی حرمت ہے ۔ کہیں موٹر سائیکل پر جانا ہو تو ایک پریشانی کہ بہو شوہر کے دھڑ کے ساتھ بیٹھے یا سُسر کے سر کے ساتھ ؟ ۔ الغرض ان کی زندگی اجیرن ہوگئی ۔ تمام معمولات ٹھپ ہو گئے ۔ ایسے میں کسی نے مشورہ دیا کہ یوں کیا جائے کہ دونوں اپنی اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیں اور از سرِ نو نکاح کریں تاکہ دھڑ حلال ہو جائیں"شاگرد پوری توجہ سے سن رہا تھا اور بہت پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا ۔" تم اب بتاو کہ اگر لڑکے کی ماں طلاق لے تو کس سے لے؟ بیٹے کے دھڑسے یا شوہر کے سر سے ؟ادھر بہو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے. شوہر کے سر سے طلاق لے یا سُسر کے دھڑ سے ؟اب تم بتاو کہ کیا کیا جائے؟" شاگرد بولا:" استاد جی... میرا تو دماغ بند ہو گیا ہے. مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے"استاد گویا ہوئے:" بیٹا... بس یہ جو تمہاری کیفیت ہے نا اسے ہی مخمصہ کہتے ہیں"-----موجودہ حکومت بھی انہی حالات کا شکار ہے. اس کا سر پی ٹی آئی کا اور دھڑ باقی جماعتوں کا لگا ہے. سر الگ کریں تو مصیبت دھڑ الگ کریں تو مصیبت. گویا موجودہ صورتحال مخمصے کا شکار ہو گئی ہے---
**
کا۔ کے۔ کی
کا کے کی حروف جار کہلاتے ہیں ۔ انہیں سمجھنے کے لئے آپ کو اضافت کا سبق دہرانا پڑے گا ۔ یعنی اسلم کی کتاب ۔ اس میں اسلم مضاف الیہ اور کتاب مضاف ہے ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جس کی طرف کوئی چیز منسوب کی جائے وہ مضاف الیہ اور جس چیز کی نسبت کی جائے وہ مضاف ہوتی ہے ۔ اصول یہ بناکہ حروف جار مضاف کے مطابق آتے ہیں ۔ یعنی اس جملے میں اسلم مذکر ہونے کے باوجود حرف کی اس لئے آیا کہ کتاب مؤنث ہے ۔ اسی طرح نادیہ کا قلم ۔ یہاں نادیہ مؤنث جبکہ اس کے بعد حرف کا کیوں آیا؟ کیونکہ قلم مذکر ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ حروف جار مضاف کے تابع ہوتے ہیں ۔ اگر مضاف مذکر ہے تو حرف جار کا اور جمع کی صورت میں کے آئے گا اور اگر مضاف مؤنث ہے تو حرف جار کی جمع کی صورت میں بھی کی آئے گا ۔ پس کا۔ کے۔کی کا تعلق مضاف الیہ سے نہیں بلکہ مضاف سے ہے ۔ جیسا کہ پہلی مثال میں سمجھایا گیا ہے۔ مضاف الیہ مذکر ہے مگر حرف جار کی استعمال ہوا کیونکہ مضاف مؤنث ہے ۔ ان جملوں کو دیکھیے ۔ حاشر کی پینسل ، حذیفہ کی گاڑی ، اسامہ کی عینک ، اسحاق کی قمیص۔ اب ان جملوں کو دیکھیے۔ نادیہ کا لباس ، ہادیہ کا بیگ ، لائبہ کا موبائل ، مریم کا برقع ، آمنہ کا دوپٹہ ، ہبہ کا تکیہ ۔ احمدمنیب
**
کلاسیکل
1: فرانسیسی میں Classiquسے مراددرسی جماعتیں ہے۔
2: لاطینی میں Classicus سے مراد معاشرہ کا اعلیٰ طبقہ اور بلند مرتبہ افراد یا گروہ ہے۔ چنانچہ لاطینی میں Classicکے معنی ہجوم کے بھی ہیں۔
3: Classicsسے مراد عسکری لشکر میں بہترین شہ سواروں پر مشتمل حصّہ لیا جاتا ہے۔
4: ۔ فرانسیسی نقّاد سانت بیو(۱۸۶۹۔۱۸۰۴) ایک مضمون ’’کلاسیک کیا ہے‘‘؟ میں لکھا:
’’ عام طور پر ’’کلاسیک‘‘ کا لفظ اس قدیم مصنّف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی حد درجہ تعریف وتوصیف ہوچکی ہو، جس کی جامعیت اور انفرادیت اور حیثیت مستند اورمسلّم ہو اور جس کی تعریف سے ہر کس وناکس واقف ہو۔ ۔۔ رومن طبقۂ خواص میں ایک مقررہ حد سے زیادہ آمدنی والے لوگ classici کلاسیکی اورمقررہ حد سے کم آمدنی والے لوگوں کو کلاسیم classem کہا جاتا ہے۔‘‘
5: برصغیر پاک و ہند میں classical کو بیک وقت قدیم اور اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔یعنی ایسا ادبی نمونہ جو بے مثل دیگرنمونوں سے برتر اور اعلیٰ و ارفع ہو۔
6: دوسری صدی عیسوی کا ایک مصنّف آلس جیلئں بہت کوشش کے بعد classicus کا لفظ ادب اور مصنّفین کے لیے اصطلاحاً مخصوص کروانے میں کامیاب ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد ایسے مصنفین کلاسیکل کہلانے کے حق دار ٹھہرتےہیں جن کی تحریرات میں ندرت بیان۔ جدت طرازی اور نئے عام فہم اور گہرے موضوعات پر قلم پاشی کی گئی ہو۔
روایت کی اصطلاح کو وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ روایت اور روایت شناسی سے مراد اسلاف کی صحت مند اقدار ہیں۔
۱۹۱۷ ء میں ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے Tallent Tradition and Individual یعنی روایت اورانفرادی صلاحیت کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں کلاسیکیت، رومانیت،روایت اورتجربہ پسندی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے نیا لکھنے والا کیسے کسی بھی خیال کو لے کر پایۂ تکمیل تک پہنچاتاہے نیز وہ قُدَماسے کیا سیکھتا ہے اورکون سے نئے اضافہ جات کر کے اسے افاضۂ عام کے لیے پیش کرتا ہے اور معاشرے اور ادب میں کیسے اور کن معقول تبدیلیوں کاباعث بنتا ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی تجربہ پسند ادیب یا شاعر اگر اپنے کلام و تصنیف کو ماقبل دانش وروں اور مصنفین سے جوڑکر آگے کا سفر شروع کرے تو ہی وہ ایک مربوط ادب مہیا کر سکتا ہے۔ کیوں کہ یہی تاریخی شعورِ زمان و لازمان ادیب کو روایت کا پابند بناتا اور ارتقا کی منازل سے آشنا کرتا ہے۔ اس لیے روایت سے جڑا رہنا ایک مربوط قوم کا پتہ دیتا ہے۔ احمدمنیب