گریس ہال سیل
گریس ہال سیل (Grace Halsell) امریکا کی مشہور مصنفہ ہیں۔ یہ سابق امریکی صدر بش کی تقریر نویس بھی رہی ہیں۔ ان کا نام امریکا کی معروف کتاب Who is who میں بھی درج ہے۔ انہوں نے پورے یورپ کا سفر بائیسکل پر کیا۔ اپنی سیاحت کے دوران چین، روس، ویت نام، کوریا، ایشیا، بوسنیا، کوسوو.... بیسیوں ملکوں اور علاقوں کا دورہ کیا۔ عرب اسرائیل جنگ کے وقت گریس ہال وائٹ ہاﺅس میں صدارتی تحریر لکھنے پر مامور تھیں۔ گریس ہال کے زورِ قلم کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے سپرپاور کا سب سے طاقت ور سمجھا جانے والا شخص، جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ناپا اور تولا جاتا تھا، اسی خاتون رائٹر کا لکھا ہوا ہوتا تھا۔
گریس ہال کے لکھنے کا طریقہ اور انداز یہ تھا وہ جس موضوع پر لکھنا چاہتی، اس ماحول کے ایک فرد کا روپ دھار کر انہی لوگوں میں گھل مل جاتی۔ ان کے جذبات اور احساسات اپنے اوپر طاری کرلیتی۔ انہی جیسا بن کر سوچتی۔ اس کے بعد پوری توجہ اور محنت کے ساتھ متعلقہ موضوع پر لکھتیں۔ گریس ہال نے جس موضوع پر بھی لکھا، اس کا حق ادا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی کتابیں امریکا کی بہت زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار کی گئیں اور وہ مقبول مصنّفین کی فہرست میں شامل ہوگئیں۔
مثال کے طور پر اگر وہ بھکاریوں پر لکھنا چاہتیں تو بھکاریوں والا لباس پہنتیں۔ کشکول ہاتھ میں لیتیں، گدڑی اوڑھتیں، اپنے اردگرد ویسا ہی ماحول بناتیں۔ وہی محسوسات، جذبات اور حالت طاری کرتیں۔ ماہرین نفسیات نے لکھا ہے آپ مصنوعی طور پر کسی کا روپ دھار لیں۔ ویسی ہی نقل کریں تو 15 منٹ کے بعد اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ گریس ہال اس سے بخوبی واقف تھی، چنانچہ اس نے جو بھی تحریر لکھی، اس کے لیے پہلے بھرپور مطالعہ کیا، پھر ماحول بنایا، پھر ویسے ہی جذبات اور محسوسات اپنے اوپر طاری کیے۔
امریکا میں سیاہ فام آبادی اور اس کے پیدا کردہ مسائل دلچسپ موضوع ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری رنگت کو سیاہ کرکے سیاہ فام آبادی میں جاکر رہنا شروع کیا۔ مس سی پی اور ہارلم کی سیاہ فام آبادیوں میں ایک سیاہ فارم عورت کے طور پر کافی عرصہ گزارا۔ اس تجربے کی سرگزشت انہوں نے اپنی کتاب ”Soul Sister“ میں قلم بند کی جو چھپتے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ امریکا کا ایک اور مسئلہ وہ باشندے ہیں جو سرکاری راہ داری کے بغیر امریکا اور میکسیکو کے درمیان سرحد پار کرکے آتے جاتے رہتے ہیں۔ گریس ہال سیل نے روپ بدلا۔ جنوبی امریکا کے غریب ممالک سے ریاست ہائے متحدہ امریکا آنے کے خواہش مند لوگوں میں جا شامل ہوئیں۔ ان کے ان تجربات پر مبنی کتاب ”The Hlegals“ جب شائع ہوئی تو اس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے۔
گریس ہال کی ایک اور تصنیف ”Hair Bessie Yellow“ ان کی زندگی کے اس خود اختیاری دور کی کہانی ہے جو انہوں نے امریکی ریاست ایریزونا کے مقام ”ناووجو“ (Navago) میں گزارا۔ ان کی یادداشتیں بھی بڑی مقبول ہوئیں جن کا نام انہوں نے ”Their Shoes“ رکھا تھا۔ اپنی شاہکار اور منفرد انداز کی تصانیف کی بدولت وہ ٹیکساس کرسچین یونیورسٹی میں صحافت کے گرین آنرز کی چیئرمین نامزد کی گئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں زندگی بھر اعلیٰ کارکردگی کا انعام ”Lifetime Achievement Award“ پیش کیا۔ یہ تھا گریس ہال کی کامیابی کا راز اور اس کے لکھنے لکھانے کا طریقہ کار اور انداز۔
**
الیگزینڈر
الیگزینڈر ہیملٹن “ (Alexander hamilton) مشہور مصنف اور ناول نگار گزرے ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ یہ لکھتے وقت ہمیشہ لیموں کا شربت پیتے تھے۔ یہ گھنٹوں لکھتے جاتے اور لیموں کا مشروب پیتے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مضامین لکھتے وقت گلابی کاغذ استعمال کرتے تھے۔ شعر و شاعری کے لیے پیلا کاغذ، جبکہ ناول اور ڈراما لکھنے کے لیے نیلے رنگ کا کاغذ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے مطلوبہ موضوع پر لکھنے میں مدد ملتی ہے۔
**
کرٹ وونے گرٹ
کرٹ وونے گرٹ“(Kurt Vonnegut) کہتے ہیں: ”میں لکھنے سے پہلے ہمیشہ ڈنٹ پیلتا اور اٹھک بیٹھک کرتا ہوں۔ 1956ءمیں کرٹ نے اپنی اہلیہ کو ایک خط لکھاجس میں اس نے اپنی روزانہ کی مصروفیات کا ذکر کیا تھا۔ بعد میں یہ خط اس کی کتاب کرٹ وونیگرٹ لیٹرز میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے لکھا: ”میں ساڑھے 5 بجے بیدار ہو کر تقریباً ساڑھے 8 بجے تک مسلسل کام کرتا ہوں۔ ناشتہ کر کے پھر سے 10 بجے تک کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد گھر کے کچھ کام، قصبے میں چہل قدمی اور قریبی میونسپل سوئمنگ پول میں کوئی آدھ گھنٹہ تیراکی کے بعد تقریباً پونے 12 بجے واپس گھر لوٹتا ہوں۔ ای میلز دیکھنے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اسکول کے لیکچر کی تیاری کرتا ہوں۔ شام ساڑھے 5 بجے تک اسکول میں رہتا ہوں۔ رات کو ہلکا پھلکا کھانا کھا کر کچھ مزید مطالعہ بھی کرتا ہوں۔ سونے کے لیے میں 10 بجے سے زیادہ تاخیر نہیں کرتا۔ میں اکثر ڈنٹ پیلتا اور اُٹھک بیٹھک کرتا رہتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے میرا جسم نرم اور لچک دار ہورہا ہے۔
**
جوڈی پیکالٹ
”جوڈی پیکالٹ“ (Jodi Picoult) نے نوح چارنی کو ایک انٹرویو میں اپنی لکھنے کے عادات سے یوں آگاہ کیا تھا۔ میں لکھاریوں کی بندش کی قائل نہیں ہوں۔ رائٹرز بلاک کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جب آپ کو کالج کا کوئی فوری نوعیت کا کام کرنا ہوتا ہے تو آپ ایک رات قبل ساری تیاری کر لیتے ہیں۔ رائٹرز بلاک کا مطلب بس اتنا ہے کہ لکھاری کے پاس وقت بہت زیادہ ہے۔ اگر آپ کے پاس بہت محدود وقت ہو اورآپ کے ذمے کام ہو تو آپ یقینا کر گزریں گے۔ یہ ٹھیک ہے آپ ہر دن بہت اچھا نہیں لکھ پاتے، لیکن کم از کم ایک صفحے کو ایڈیٹ تو کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر صفحہ خالی ہوا تو آپ ایڈیٹ کیا کریں گے۔
**