تمہیں بتاوں! جو تم سنو تو، یہ عشق کیوں کر عتاب میں ہے
اسی نے مارے ہیں سارے جگنو، تبھی تو خانہ خراب میں ہے
ابھی وہ آئیں گے مجھ سے ملنے، ہے مجھ سے طے اب وصال ان کا
اے دل تو کتنا ہی خوش گماں ہے، تو کس وجہ سے شتاب میں ہے
پھٹا پھٹا ہے ہر ایک کاغذ، کہیں ہے سرخی کہیں ہے دیمک
اداسیوں کا پڑاؤ کیسا، یہ زندگی کی کتاب میں ہے
حیات کے جو حسیں ورق ہیں، ہیں خوں کی چھینٹیں جگہ جگہ پر
بتا محبت کی اے اذیت، تو کب تلک اس نصاب میں ہے
جھکے ہیں کتنا ہم ان کے آگے، ہیں ہاتھ جوڑے، ہیں پاوں پکڑے
کسی طرح سے نہ کم ہوئی ہے، اکڑ جو عالی جناب میں ہے
بڑے ہی دانا ہیں میرے اپنے، جو کھیل کھیلیں ہیں شاطرانہ
چبھا کے تلخی کا نیزہ دیکھیں، کہ ضبط کتنا حباب میں ہے
کرنؔ یہ ظالم زمانہ کتنا، ہر ایک دل کا قرار چھینے
اسی زمانے کی دین ہے جو، عشق اب بھی عذاب میں ہے