مجھ کو اس زیست سے بڑھ کر کوئی افتاد نہیں
عشقِ دنیا سے کسی کا بھی تو دل شاد نہیں
ہائے یہ وصل بھی کیا شے ہے صنم تیری قسم
کتنی تھیں دل کو شکایات مگر یاد نہیں
کیسے دے دوں میں سوا تیرے کسی اور کو اب
یہ مرا دل ہے تبرّک نہیں پرشاد نہیں
میں نے دل سونپ دیا عشق کے رہبر کو سنو
مجھ کو کچھ حاجتِ رہزن نہیں صیّاد نہیں
پنّوں ہو ہیر ہو یا لیلیٰ و مجنوں سسّی
کون اس عشق کے ہاتھوں بتا برباد نہیں
پہلے یہ لیتا ہے پرچے تو ہی دیتا ہے سبق
وقت کے جیسا یہاں کوئی بھی استاد نہیں
آؤ ہم ڈوب چلیں بحرِ محبّت میں کرن
اب تو اس عشق کو شیریں نہیں فرہاد نہیں