عشق!! پھر سے نہیں، شکار نہیں
توبہ توبہ نہیں، یہ کار نہیں
دل میں ہے موسمِ خزاں ہر سُو
کوِئی رونق نہیں بہار نہیں
پوری دنیا کے آگے بچھتے ہیں
نین ہم سے ہی انکے چار نہیں
اس کہانی کی میں ہی لیلیٰ ہوں
اور مجنوں کو مجھ سے پیار نہیں
دل نے تجھ بن دھڑکنا چھوڑ دیا
اور تجھ پر یہ آشکار نہیں
دل کا بیوپار نقد کرنا ہے
سوچ لینا یہاں ادھار نہیں
کیا کہا!! خواب میں، 'میں' آئی تھی
اس کا مطلب تمہیں قرار نہیں
کیسے ان کو بنائیں ہم اپنا
کوئ خنجر نہیں ہے، دار نہیں
دل کے ٹکڑے ہی ہو گے ہیں کرن
اور اتنے کہ کچھ شمار نہیں