جب بھی پڑھایا ہاتھ منانے کے واسطے
پایا تیار آنکھ دکھانے کے واسطے
ہم نے کمالِ ضبط کی کردی ہے انتہا
کیا کیا ہوا نہیں ہے ستانے کے واسطے
مجنوں صفت تھا چھوڑا نہ در جان ہار دی
کیا کیا ستم ہوئے نہ بھگانے کے واسطے
مخلوق کےگلے میں ہی پٹہ پڑاہے کیوں
بندر حضور کم تھے نچانے کے واسطے
لوٹا گیا ہے مال غریب الدیار سے
لایا تھا جو مکاں کے بیانے کے واسطے
چولھے بھی نہ جلیں گے مرے دیس باسیو
پانی بھی ٹھنڈا ہوگا نہانے کے واسطے
تھی آرزو تو جینے کی کچھ اور وارثی
ہمت نہیں ہے درد چھپانے کے واسطے