یقینِ ناحق کے کور چشمو !
یہ کن صحیفوں کی آیتیں ہیں
فلک کی شاہی کے نام پر تم بشر کو اپنا غلام کر لو
یہ کون گزرا ہے
خوف سے زرد لونڈیوں کی قطار لے کر
وہی نہیں جس نے دورِ دیں میں
خیال کی جوئے شِیر پانے کو
جنتِ ارض پر لہو کی لکیر کھینچی
حضورِ افلاک، خونِ آدم کی نذر مانی
خدائے واحد کے نام پر اس کی خلق تقسیم کر رہا ہے
غرور، مصنوعی رفعتوں کا
لبِ خطابت سے بانٹتا ہے
یقینِ ناحق کے کور چشمو !
یہ کس جبیں پر پیام اترے
نظر بس اک سمت دیکھتی ہو
خیال، طوقِ حدود پہنے
قدم کو زنجیر کھینچتی ہو!
رہینِ اوہام، برتری کے وراثتی افتخار ٹوٹے
تو سارے انسان ایک جیسے تھے
اب غلاموں کے لحم و خوں کو
بکاؤ ہونے کی ذلتوں سے بچا لیا ہے
رواجِ کہنہ کو یوں مٹایا
جبیں کو بے داغ کر لیا ہے!