قید عمر رواں
کی سلاخوں کو تھامے ہوئے
جب کبھی جھانکتا ہوں
میں ماضی کی کھڑکی سے اب
یاد آتی ہیں مجھ کو
وہ پگڈنڈیاں
جن پہ بھاگا تھا بچپن
کھلے پاؤں
دھوپ سے کھلتی برگدی چھاؤں
اور مہکتی چہکتی ہوئی دھول
میری انگلی پکڑ کر
مجھے لے کے جاتی تھی اسکول
وہ ادارہ
جہاں شرط تھی علم و فن کی تراش
ایسا مندر
جہاں ہو گئیں سب بری عادتیں پاش پاش
درس دیتے ہوئے کچھ خدا
جن سے حاصل ہوا مجھ کو انسانیت کا سبق
جن کے سایہ میں آیا مجھے
زندگی کا شعور
جن کے لفظوں کا نور
آج بھی ہے میری ظلمت روز و شب
کا اجالا
بحق
جن کی باتیں مصیبت میں رہ رہ کے آتی ہیں یاد
میرے استاد