وہ آ خر ہوگئی حاصل
جو شئے مطلوب تھی تم کو
اجل کا خوف بے معنیٰ
اجل محبوب تھی تم کو
تمہیں شکوہ یہی تھا نا !
کہ میری ذات کے اندر
کوئی آ ندھی سی چلتی ہے
ہمیشہ دھول اڑتی ہے
گلہ تم کو یہی تھا نا !
کہ مجھ میں خارزاروں کا
سلگتے ریگ زاروں کا
عجب اک سلسلہ سا ہے
اٹھو! دیکھو ذرا آ کر
تم اپنی قبر کا منظر
ہزاروں پھول مہکے ہیں
ہزاروں رنگ بکھرے ہیں