بنگلہ دیش کے قومی دن کی مناسبت سے ٹیلی ویژن کی نشریات جاری تھی۔ شیخ صاحب کے پرانے انٹرویو کا ریکارڈ چل رہا تھا۔
وہ فرمارہے تھے:
”مغربی پاکستان ہمارے ساتھ بہت زیادتی کر رہا ہے۔ یہ باہری لوگ یہاں آکر بس گیا ہے۔ ہماری عورتیں ان کے گھروں میں۔۔۔۔۔یہ سب نہیں چلے گا۔“
اچانک سے دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔
”امی یہ کون بدتمیز ہے؟“ میں جو ٹی وی دیکھنے میں محو تھا، ناگواری سے امی سے پوچھ بیٹھا۔
مجھے یہ تو پتہ تھا کہ امی کا دربار ہمہ وقت کھلارہتا ہے اور کوئی بھی کسی وقت بھی دستک دے سکتا ہے۔
”ماسی ہوگی بیٹا ذرا دیکھ لو گے؟“
امی نے جواب میں کہا۔ امی کو اٹھنے میں وقت لگتا اور آپی باہر گئی ہوئی تھی۔ میں نے اٹھ کر دروازے کی طرف جاتے ہوئے فقرہ کس دیا۔۔۔۔
”امی کیامزے ہیں لوگوں کے کراچی میں ماسی، نوکر چاکر۔۔۔۔ایک ہم یورپ میں سب کچھ خود کرتے ہیں۔“
امی نے میرا فقرہ سن لیا تھا۔۔۔۔۔بولیں
”بیٹا اب مجھ سے کام کہاں ہوتا ہے اور تمہاری بہن سارا، اندر باہر کرتے کرتے تھک جاتی ہے۔ بس اسی لیے رکھ لیا۔“
”پھر تم جانتے نہیں یہ بچاری بنگلہ دیش سے یہاں کام کرنے کی غرض سے آئی ہوئی ہے۔ اس کو بھی تو کام چاہیے نا۔“
”اچھا! امی “
کہہ کر جو میں نے دروازہ کھولا تو ہکا بکا رہ گیا۔۔۔۔ملکہ کی ماں سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔ہو بہو وہی۔۔۔۔۔
ملکہ کی ماں کیا تھی پورے پینتیس سال پہلے کی کہانی میرے سامنے کھڑی تھی۔
پینتیس سال قبل وہ دسمبر کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ ہلکی ہلکی دھوپ اپنی سنہری چادر آنگن سے آگے بڑھا کر کمرے کے دروازے تک پھیلائے ہوئے تھی۔
نانی برآمدے میں دیوان پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
باورچی خانے میں ملکہ کی ماں بیٹھی سل پر مسالہ پیس رہی تھی۔ مسالہ پیستے پیستے رک کر اس نے امی کو مخاطب کیا جو اس کے پاس ہی کھڑی تھیں۔۔۔۔
”اماں! اب ہم یہ کام نہیں کرے گا۔۔۔۔“
”کیوں نہیں کروگی“ امی نے پوچھا۔۔۔۔
”بس اب نہیں۔۔۔۔شیخ صاحب ہم کو کہتا ہے کہ اب تم لوگ باہری لوگ کے گھر کام نہیں کرے گا۔۔۔۔ اب باہری لوگ کی عورت ہم بنگالیوں کے گھر کام کیا کریں گی۔۔۔۔۔۔“
اسی وقت ایک زور دار دھماکے کی آواز نے ہم سب پر لرزہ طاری کر دیا۔۔۔۔ملکہ کی ماں سل پر مسالہ چھوڑکر اٹھی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی باہر بھاگ نکلی۔۔۔۔۔۔”ملکہ کی ماں ملکہ کی ماں۔۔۔۔“
امی آواز دیتی ہی رہ گئیں۔
دوپہر بارہ بجے تک خبر آگئی ہندوستان نے پاکستان کے مشرقی حصے پر توپوں اور ٹینکوں سے شدت کے ساتھ حملہ کر دیا ہے۔ اور فضائی حملہ بھی بھر پور طریقے سے کیا جارہا ہے۔
آج پینتیس سال بعد۔۔۔وہی ملکہ کی ماں میرے دروازے پر کھڑی تھی۔۔۔۔
”بھئی دروازے سے ہٹوگے ۔۔اسے اندر آنے دوگے۔۔۔۔“’امی نے زور سے آواز لگائی تو میں اپنی دنیا میں واپس آگیا۔۔۔۔۔
”امی۔۔۔وہ۔۔۔۔ امی۔۔۔“ میں پلٹا اور امی کے کمرے میں جاتے ہوئے امی سے سوال کرنے لگا ”یہ تو وہی ملکہ کی ماں نہیں ہے۔۔۔۔۔“
”ہشت۔۔“امی نے مجھے ڈانٹا
”تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ آج پینتیس سال بعد تمہیں ملکہ کی ماں کیسے یاد آگئی۔۔۔۔۔“
”امی یہ ویسی ہی ساڑھی باندھے۔۔۔ہوئے ہے۔۔۔شکل بھی تو بالکل ملتی جلتی ہے۔۔۔۔۔“
”نہ میرے بچے تو اس بنگالی خاتون کو ساڑھی باندھے دیکھ کر۔۔۔۔بنگالی ناک نقشے کی وجہ سے اسے ملکہ کی ماں سمجھ رہا ہے۔“ امی بولتی رہیں۔۔۔۔۔اور میں خیالوں میں ہی کھویا ملکہ کی ماں کو تلاش کر رہا تھا۔۔۔۔۔
قریب دو گھنٹے یا شاید اس کچھ کم وقت کے بعد۔۔۔ ماسی جب کام سے فارغ ہو کر جانے لگی تو امی کے پاس،امی کی اجازت لینے آئی۔ میں امی کے پاس ہی ان کی مسہری پر بیٹھا تھا۔۔۔۔
”سنو ایک با ت پوچھنی ہے تم سے۔۔۔“ میں نے ماسی سے ٹوٹی پھوٹی بنگالی میں کہا۔۔۔۔ اور وہ مجھے خالی نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔اور اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی۔۔۔۔امی نے میری بات اچک لی۔۔۔
”تم باز نہیں آؤگے۔۔۔۔۔۔بھئی یہ ملکہ کی ماں نہیں۔۔۔۔بلکہ خود ملکہ ہے۔۔۔۔“
”اخاہ۔۔۔۔جب ہی آپ مجھے پوچھنے سے روک رہی تھیں۔۔۔۔“
”توبس ہوگئی اب تمہاری تشفی۔۔۔“ امی نے مجھے مخاطب کیا۔
اور
”اب تم جاؤ کہہ کر امی نے ملکہ کو چلتا کر دیا۔۔۔“
ملکہ چلی تو گئی مگر میری سوچیں اس کے شانہ بشانہ ساتھ چلتی چلی جارہی تھیں۔ ملکہ کی ماں ہمارے گھر کام کرنے آیا کرتی تھی تو ملکہ اکثر ضد کرکے اس کے ساتھ ہی آجایا کرتی تھی۔ میں اور ملکہ گھنٹوں ساتھ کھیلتے رہتے۔ کبھی محلے کے دوسرے بچے آجاتے اور ہم سب ’اوپائینٹی بائیسکوپ‘ کھیلتے۔ جس میں ایک قطار میں سب بچے ایک دوسرے کے پیچھے چلتے جاتے۔ جبکہ دو بچے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر کھڑے رہتے اور قطار کو گزارتے وقت گاتے۔۔۔۔ ”اوپائینٹی بائسکوپ۔۔ سلطانہ بی بی آنا۔۔۔صاحب بابو بیٹھے کھانا۔۔۔۔“یہ کھیل بذات خود ایک نعرہ تھا عدم مساوات کے خلاف مگر ہم بچوں کو اس سے کوئی مطلب نہ تھا۔ نہ ہمیں طبقاتی فرق کا پتہ تھا۔ کھیل تماشے سارے ختم ہوگئے۔ قطاروں سے نکل کر ہم سب ادھر ادھر ہوگئے۔ اور میں اور سلمٰی ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہوکر آج پینتیس سال بعد آمنے سامنے کھڑے تھے مگر ہمارے درمیان فرق اور زیادہ واضح ہو گیا تھا۔ میں سوچتا جاتا اور الجھتا جاتا ۔۔۔۔نہ معلوم ملکہ کو وہ بچپن کے دن یاد بھی تھے کہ نہیں۔۔۔۔۔کیا پتہ وہ ان دنوں کی یاد اپنے ذہن سے کھرچ کر بھلا بھی چکی ہو مگر میں اس سے پوچھنا ضرور چاہتا تھا۔ امی نہ جانے کیا سمجھ رہی تھیں اور ان باتوں کے ذکر سے ہی کترا رہی تھیں۔
۔۔۔مگر مجھے جستجو تھی اس کے حالات کو جاننے کی۔ بہت سارے سوالات تھے جو میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے ان کا جواب مجھے چاہیے تھا۔
شام کے وقت میں امی کے پائینتی سے لگا بیٹھا امی کے پاوں دبا رہا تھا۔”امی“ میں نے آہستگی سے موضوع چھیڑتے ہوئے امی کو مخاطب کیا۔
”آپ نے ملکہ سے اس کی کہانی نہیں پوچھی۔۔۔۔“ میری بات سن کر امی نے اپنے دونوں پاؤں یکدم سمیٹ لیے۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔
”آخر تم چاہتے کیا ہو۔“امی نے الٹامجھ پر سوال داغ دیا۔
”امی آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔
”میں تو بس یونہی۔۔۔۔“ میں نے کچھ کہنا چاہا مگر امی شروع ہو گئیں تو میں خاموش ہو گیا۔
دیکھو! میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ میں خوب سمجھتی ہوں کہ تم جس جذباتی کشمکش کا شکار ہو اس میں کیسے کیسے ابال آتے رہتے ہیں اور یہ اسی تلاطم کا کمال ہے کہ تمہیں وہ بچپن کی ملکہ یاد آ رہی ہے۔ مگر ایک بات کان کھول کر سن لو کہ تم نے اپنی من مانی کی اور پچھتائے۔۔۔۔۔۔ مگر تم نے سیکھا کچھ نہیں ۔۔۔ اب میری بات غور سے سنو۔۔۔۔۔
امی بولتی رہیں۔۔۔ تم کل راولپنڈی کے لیے روانہ ہو گے۔ تمہاری خالہ نعیمہ تمہارا انتظار کر رہی ہے۔۔۔ میں نے خالدہ سے تمہارا رشتہ پکا کر دیا ہے۔ تم جا کر اس سے ملو اور تم دونوں اپنی اپنی زندگی کے بند باب کھول کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو۔ اگر خالدہ کی بیٹی کو بھی تم ساتھ لے جا سکو گے تو اسے بھی ساتھ لے جانا اگر کچھ قانونی مشکلات ہوں تو ہم دونوں بہنیں مل کر اس بچی کو پال لیں گے۔
امی کا فیصلہ حتمی تھا۔ انہوں نے میری ایک نہ سنی البتہ دوسرے ہی دن میری روانگی ہوئی جہاز کی سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے ممکن نہ تھی اور میں کم از کم ایک بار ملکہ کو سامنے بٹھا کر سارے حالات جانے بغیر یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ امی سے اس سلسلہ میں کسی مدد کی توقع رکھنا عبث تھا۔ طرہ یہ کہ امی نے ملکہ کو چند دن کی چھٹی دے دی تھی جس کے بعد ملکہ سے میرا ملنا ناممکن ہو چکا تھا۔
مقررہ دن پر میری اسلام آباد کی پرواز اڑان بھر رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ:
ملکہ کی ماں جو کبھی اپنے ہی ملک کی آزادی سے قبل قرید پور سے ڈھاکہ آ کر کام کرتی تھی۔۔۔۔ اور اب بیچاری ملکہ کو فرید پور سے کراچی آ کر کام کرنا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔
کس کی آزادی تھی؟۔۔۔ آزادی۔۔۔ تھی یا آزادی کی قیمت چکائی جا رہی تھی۔۔۔۔
ہم کتنی بات ایک ہی چیز جو ہمیں ملے بھی اس کی قیمت ادا کرتے رہیں گے؟۔۔۔۔