رافیل وہ واحد بچی تھی جس میں ذہانت، قابلیت اور صلاحیت قدرتی طور پر موجود تھی مگر والدین کے باہمی جھگڑے اس کی ذہانت کو زنگ آلود کر رہے تھے، والدین کی ناچاقی اس کی قابلیت کو کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی، روز روز کے جھگڑے کسی جونک کی مانند اس کی صلاحیتوں کا خون چوس رہے تھے۔
دن بہ دن رافیل کی قابلیت ختم ہوتی جا رہی تھی، وہ کلاس میں ہو کر بھی کلاس میں نہیں ہوتی تھی، بچے بریک ٹائم کھیلنے میں مصروف رہتے تھے اور رافیل اکیلی سیڑھیوں میں گم سم سی بیٹھی رہتی تھی، ہر وقت ہاتھ میں ایک بھالو کو ساتھ رکھتی اور اسی سے باتیں کرتی رہتی تھی، بچے رافیل کا مذاق بناتے مگر رافیل کے لیے یہ چھوٹی سی بات معلوم ہوتی تھی۔
اتنی سی عمر میں اس قدر نفسیاتی ہونا یقیناً یا تو والدین کے جھگڑے کی بدولت ہوتا ہے یا پھر جنسی ہراسمنٹ اس کا سبب بنتی ہے۔
میں ان وجوہات کو بخوبی جانتا تھا تو مجھ سے ٹیچر عاصمہ نے رافیل کی اس حالت کا ذکر کیا جو میں خود بھی بہت دنوں سے نوٹ کر رہا تھا۔
میں نے کئی بار رافیل کے والدین کو کال کی اور سکول آنے کا کہا، وہ تشریف نہیں لائے تو مجھے یقین ہو گیا کہ رافیل کے والدین میں روز مرہ کی بنیاد پر جھگڑے چل رہے ہیں اور انہی وجوہات نے رافیل کو اس حالت تک پہنچایا تھا۔
میں نے کال پر بہت مرتبہ باتوں ہی باتوں میں جاننے کی کوشش کی مگر رافیل کے والدین کہتے رہے کہ " نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے". جب کوئی مثبت جواب نہ ملا تو میں نے ٹھان لی کہ رافیل کے گھر جا کر اس کے والدین سے بات کرنی ہوگی۔
اگلے اتوار کی صبح میں رافیل کے گھر پہنچ گیا اور اس کے والد کے ساتھ لان میں بیٹھ کر گپ شپ شروع کی۔ اسی دوران رافیل کی والدہ ملک شیک لے کر تشریف لائیں تو میں نے ان سے بھی بیٹھنے کی درخواست کی اور ایک کہانی سنانے لگا۔
" ایک بہت ہی قابل بچی تھی جو کلاس میں ہمیشہ سے اول پوزیشن حاصل کرتی تھی، سکول کی ہر ٹیچر اور سب سٹاف ممبر اس بچی کی قابلیت کے معترف تھے۔ وہ بچی سب کے دل میں اپنی عادات اور صلاحیتوں کی بدولت بسیرا کرتی تھی کہ اچانک سے اس بچی کی قابلیت دن بہ دن کم ہونے لگی۔جب سکول کے سٹاف اور اس بچی کی ٹیچر نے جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ اس بچی کے والدین کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ میں نے بچی کے والدین کو بلایا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ بچوں کے مثبت اور منفی رویوں اور نتائج میں والدین کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔
والدین کی باہمی محبت ہمیشہ ایک با شعور نسل کی ضامن ہوتی ہے جبکہ والدین کی باہمی ناچاقی ایک نفسیاتی اور مفلوج نسل کی ضامن ہوتی ہے جو ملک و قوم کی ترقی میں بڑی رکاوٹ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سنگین جرائم کو جنم دیتی ہے۔
میرے ایک دوست اپنی کامیابی کا سبب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے والدین کا جھگڑا کبھی بھی بچوں کے سامنے نہیں ہوا۔ یقیناً کچھ مسائل تھے لیکن میرے دوست کے بقول ان کے والد گھر میں بڑے پیار سے داخل ہوتے، بیوی بچوں سے سلام دعا کرتے اور بیوی کو کہتے کہ کمرے میں آئیں آپ سے ضروری کام ہے۔
جب کمرے سے باہر واپس آتے تو دونوں مسکراتے ہوئے آتے تھے، جس کی وجہ سے ہمیں یہ تک علم نہیں تھا کہ ان کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے، لیکن اب بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ ان کے جھگڑے کا انداز ہی مختلف تھا اور اب میری بھی یہی عادت ہے کہ یا تو جھگڑا کرنا نہیں، اگر کوئی وجہ ہے بھی تو بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا ہے اور میں بھی الحمدللہ اپنے والد کی طرح ایک مثبت اور با شعور نسل کی پرورش کر رہا ہوں۔
یہ کہانی سنانے کے بعد میں نے رافیل کے والدین سے اجازت لی اور واپس چلا آیا، کچھ ہی دن کے بعد رافیل کے چہرے پر وہی مسکراہٹ لوٹ آئی اور رافیل نے پھر سے اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی۔ الحمدللہ