طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کے جدید ترین دور کا ایک معتبر نام سیّد ضمیر جعفری ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے اسلوب کی خوبصورتی اور تہ داری ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو ایک منفرد پہچان دیتی ہے جس کا دھیما پن ہر مصرعے سے جھانک کر تبسم و لطافت کے بے شمار زاویوں کو جنم دیتا ہے۔ضمیر جعفری اپنے ہر موضوع سے اس قدر قریب ہو کر اس کی پنہائیوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ ایک متحرک نقش کی طرح صفحۂ قرطاس پر دکھائی دینے لگتا ہے۔بقول ڈاکٹر ظفر عالم ظفری:
’’سیّد ضمیر جعفری ایک اچھے مصور سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ وہ لفظوں کے ایسے ایسے پیکر تراشتے ہیں کہ متعلقہ شخصیت کے تمام نشیب و فراز ابھر کر اس طرح سامنے آتے ہیں کہ قاری لطف وسرور کی فضا میں خود کو کھو دیتا ہے۔ ضمیر اپنے موضوع میں اس طور پر جذب ہو کر لکھتے ہیں کہ ان کی نظم یا غزل کا ایک ایک لفظ داستان بن جاتا ہے۔۔۔۔‘‘
ان کی نظمیں ’’بفے ڈنر، شہر کا بڑا بازار، ضمیر کا گھر،سابق منسٹر، پرانی موٹر، یہ کوہاٹ ہے،وبائے الاٹمنٹ‘‘ وغیرہ اسی مصورانہ رجحان کی عکاس ہیں جس کا تذکرہ درج بالا اقتباس میں کیا گیا ہے۔پاکستان کے قیام کے فوراً بعد جس بے پرواہی اور غیر منصفانہ طریقے سے جائیدادوں کی بندر بانٹ کی گئی،اس کو ضمیر جعفری نے اپنی نظم ’’وبائے الاٹمنٹ‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے:
ہر سمت ہے بلند صدائے الاٹمنٹ
ہائے الاٹمنٹ تو وائے الاٹمنٹ
دنیا ہے اور دین ولائے الاٹمنٹ
اب لوگ جی رہے ہیں برائے الاٹمنٹ
بندے کا اب خدا ہے خدائے الاٹمنٹ
چکی ملے، مشین ملے، بادباں ملے
پانی ملے، زمین ملے، آسماں ملے
کچھ تو مری جناب ملے، مہرباں ملے
ہر چند حق نہیں ہے، مگر پھر بھی ہاں ملے
یعنی الاٹمنٹ برائے الاٹمنٹ
رہڑی جو بیچتا تھا اسے فیکٹری ملی
پورے تعلّقے کے عوض لانڈری ملی
اک در ہوا جو بند تو بارہ دری ملی
ووٹر کوئی ملا نہ ملا لیڈری ملی
اور لیڈری بھی وہ جو کرائے الاٹمنٹ
کتنے مہاجرین تو آ کر چلے گئے
پٹ توڑ کر، کواڑ جلا کر چلے گئے
دیوار و در کو ٹھوک بجا کر چلے گئے
یعنی مکیں مکاں ہی اٹھا کر چلے گئے
ہے سر پہ ساتھ ساتھ ہُمائے الاٹمنٹ
کل تک گلی کے موڑ پر جو کوٹتے تھے ٹین
’’تختہ بدوش، ٹھیلا بدست و تھڑا نشین‘‘
اک اک کے پاس آج مشینیں ہیں تین تین
اکثر بزرگ ان میں ہیں ’لوکل مہاجرین‘
بیٹھے ہیں دبدبے سے دبائے الاٹمنٹ
ضمیر جعفری کی طنزیات میں سادگی اور شائستگی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہ طنز کی کڑی کمان سے تیر برسانے کے بجائے اپنے شکار کا علاج حکیمی معجونوں سے کرتے ہیں جن کی مٹھاس اس کی کڑواہٹ پر غالب رہتی ہے۔ وہ طنز کے ہتھیاروں سے جنگ کرنے کے بجائے جنگ روکنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ طنز کے متعلق ضمیر جعفری کا اپنا نقطۂ نظر درج ذیل ہے :
’’میرے لیے طنز کا مسئلہ تکلیف دہ رہا ہے۔ میں طنز کو مزاح کا جڑواں بھائی سمجھتا ہوں۔ اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اس کے بغیر حقیقت پسندی کا عنصر پنپنے نہیں پاتا بلکہ یہ بھی کہ اگر مزاح میں سے طنز کو خارج کر دو تو باقی چربی یا ’’چرب زبانی‘‘ رہ جاتی ہے۔ مزاح بذاتِ خود بھی جمعہ کے لباس میں رہتا ہے۔ میں طنز کو ’’تیغ و کفن‘‘ پہنا کر میدانِ جنگ میں اتارنے کا قائل نہیں ہوں۔۔۔وہ بے شک لڑے مگر ہاتھ میں تلوار نہ ہو۔۔۔طنز کی تلخی میرے نزدیک مزاح کو بد مزہ اور نک چڑھا کر دیتی ہے۔۔۔جو مزاح دوسروں کو خوش نہیں کرتا وہ میری رائے میں اعلیٰ مزاح نہیں۔۔۔۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ضمیر کی تقریباً تمام طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ہمیشہ مزاح نے طنز کو دبائے رکھا ہے اور طنز کی ہلکی پھلکی لہریں ٹھنڈے پانی کی طرح سطحِ مزاح کے نیچے ہی رہتی ہیں۔ مزاح کے طنز پر حاوی رہنے کی خصوصیت اعلیٰ ظرافت کی آئینہ دار ہے اور اس کی لطافت کے دیرپا ہونے کا ثبوت بھی۔ ایسی ہی ایک مثال درج ذیل غزل میں دیکھیے، جس کا ہر شعر اپنے اندر الگ مفہوم سمیٹے ہوئے ہے:
شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے
توپ کے دھڑ، بم کے سر، راکٹ کے پر پیدا کرو
شیخ،ناصح، محتسب، ملا، کہو! کس کی سنیں ؟
یارو کوئی ایک مردِ معتبر پیدا کرو
میں بتاتا ہوں زوالِ ا ہلِ یورپ کا پلان
اہلِ یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
حضرتِ اقبال کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
انسانوں کے انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا اپنی کوتاہیوں کا بار دوسروں کے سر تھوپنا، تہذیب کے نام پر بہترین قدروں کا قتل ہو یا مساوات کے نام پر غریبوں کی حق تلفی،ضمیر جعفری نے طاقتور انسانوں کے بھیڑیئے بننے کی داستانیں ان کے مکمل اعمال کے ساتھ رقم کی ہیں۔ ایسی داستانیں بیان کرتے ہوئے ان کا طنزیہ لہجہ زہر آلود ہونے سے گریز نہیں کرتا:
کس کس ہنر میں آج ترقی نہیں ہوئی
کیا کیا شرف بشر پہ اتارا نہیں گیا
تہذیب کے کمال کا یہ رخ بھی دیکھیے
کس کس طرح سے آدمی مارا نہیں گیا
اس کو کون کہے گا تحفہ، خالص کھرے نصیبوں کا
ایک امیر کے گھر میں رزق پچاس ہزار غریبوں کا
سج رہی تھی جس جگہ کل تک کتابوں کی دکان
اس جگہ اب ’’لکڑیوں کا ٹال‘‘ دیکھا جائے گا
ایک چمچہ دال کا اور ایک ٹکڑا نان کا
امتحاں روزانہ لیتا ہے مرے ایمان کا
کر لیا ایک جست میں گو ماہ و انجم کو شکار
مر نہیں پایا ابھی تک بھیڑیا انسان کا
ہم کریں ملت سے غداری، قصور ا نگریز کا
ہم کریں خود چور بازاری، قصور انگریز کا
گھر میں کل بینگن کے بھرتے میں جو مرچیں تیز تھیں
اس میں بھی ہو گا بڑا بھاری قصور انگریز کا
سیدّ ضمیر جعفری نے ما فی الضمیر، ولایتی زعفران، ضمیریات، ضمیرِ ظرافت، بے کتابے، شناخت پریڈ،دست و داماں وغیرہ جیسے طنزیہ و مزاحیہ شعری مجموعے یادگار چھوڑے جو ’’نشاطِ تماشا‘‘ کے نام سے کلیات کی صورت میں بھی چھپ چکے ہیں۔