پانچ شخصیات پانچ باتیں
دنیا میں کامیاب جوڑا صرف جرابوں کا ہے ایک کے بنا دوسرا ادھورا رہتا ہے۔ مستنصرحسین تارڑ
مجھ میں اور میرى بیوى میں بڑا عجیب سا اتفاق ہے، نیند کی گولیاں وہ کھاتى ہے اور سکون مجھے ملتا ہے۔ ابنِ انشا
ہم اتنے امن پسند ہیں کہ ہمارے سب سے بڑے اخبار کا نام جنگ ہے ۔۔ مشتاق احمد یوسفى
دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب خانے میں شراب پى کر بولا جاتا ہے۔۔ اور دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بولا جاتا ہے! منٹو
کھانے کا ادب صرف سربراہوں اور وزیروں کو آتا ہے وہ خاموشى سے کھاتے ہیں ۔۔ انور مقصود
***
لکھنوی لطیفہ
لکھنؤ میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔۔۔
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔۔۔
ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:
"حضور والا..!!! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر، پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے، وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں۔
چند ثانیے قبل میری چشم نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاھدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آ کر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہوا گیا، اگر اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضورِ والا کی جان والا شان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔"
اور اتنی دیر میں استاد محترم کی دستار ان کے بالوں سمیت جل کر بھسم ہو چکی تھی۔
***
شیطان کون؟
انشاءاللہ خان انشا ننگے سر کھانا کھا رہے تھے پیچے سے نواب سعادت علی خان نے ایک چپت رسید کی اور چپکے ہو گئے،انشا سمجھ گئے لیکن گردن نیچے کیے نہایت متانت سے بولے اللہ میاں والد مرحوم کی قبر کو ٹھنڈی کرے،سعادت علی خان نے پوچھا کیا ہے؟ "کہا مجھے اس وقت والد مرحوم کی ایک بات یاد آ گئی" پوچھا کیا بات ؟،کہا کچھ نہیں ! سعادت علی خان نے اصرار کیاتو انشا بولے کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ننگے سر کبھی کھانا نہ کھاؤ ورنہ. شیطان چپت مارتا ہے
***
دعوت نامہ
ایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشا کرشن ایڈیٹر "پرتاپ" کا دعوت نامہ آیا جس میں لکھا تھا:
"فلاں دن پروشنا فلاں سمت بکرمی میرے سپتر ویریندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں۔ شُبھ چنتک کرشن۔"
یعنی فلاں دن میرے بیٹے ویریندر کی سر مُنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لا کر مجھ اور میرے خاندان پر مہربانی کریں۔
مولانا نے آواز دی سالک صاحب! ذرا آئیے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب آپ میری طرف سے لکھ دیجئے۔ "برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی، میں کہاں جاؤں گا، معذرت کر دیجیے۔"
سالک صاحب نے اُسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا:
"جمیل المناقب، عمیم الاحسان، معلّی الألقاب، مدیرِ پرتاپ السلام علیٰ من اتّبع الھُدیٰ!
نامۂ عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا۔ از بس کہ تقاطرِ اَمطار بحدّ ہے کہ مانع ایاب ذہاب ہے۔ لہٰذا میری حاضری متعذر ہے۔ العُذر عند کِرام النّاسِ مقبول۔"
الرّاجی الیٰ الرّحمۃ والغُفران
ظفر علی خان
***
کنور مہندرسنگھ بیدی سحر
1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کاموقع حاصل کرلیا تھا۔ جب موصوفہ نے غزل پڑھی تو سارے سامعین جھوم اٹھے ۔ غزل بھی اچھی تھی۔ لیکن نادانستگی میں اس شاعر ہ سے زیر‘ زبر اور پیش کی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر تاڑ گئے کہ غزل کسی اور کی ہے... غزل سنانے کے بعد جب موصوفہ اپنی نشست پر واپس آکر جلوہ گر ہوئیں تو ایک مداح شاعر نے ان سے کہا۔
’’محترمہ آپ کے کلام نے واقعی مشاعرہ لوٹ لیا۔‘‘
اس پر سحرصاحب خاموش نہ رہ سکے ، برجستہ تصحیح فرمائی۔’’یوں کہئے برخور دار کہ محترمہ نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ بیچاری غزل پر تو الزام نہ لگائیے...!‘‘
یہ سن کر مداح اور شاعر دونوں زبردستی کی ہنسی ہنس کر چپ ہوگئے۔
***
آدھا مسلم آدھا کافر
غدر کے ہنگامے کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو مرزاغالبؔ کو بھی بلایا گیا ۔ یہ کرنل براؤن کے روبرو پیش ہوئے تو وہی کلاہ پیاخ جو یہ پہنا کرتے تھے، حسب معمول ان کے سر پر تھی۔ جس کی وجہ سے کچھ عجیب و غریب وضع قطع معلوم ہوتی تھی ۔ انہیں دیکھ کر کرنل براؤن نے پوچھا:
’’ویل مرزا صاحب تم مسلمان ہے ؟‘‘
’’آدھا مسلمان ہوں‘‘
کرنل براؤن نے تعجب سے کہا :
’’آدھا مسلمان کیا ؟ اس کا مطلب
’’شراب پیتا ہوں،سور نہیں کھاتا۔‘‘ میرزا صاحب فوراً بولے۔
یہ سن کر کرنل براؤن بہت محظوظ ہوا اور مرزا صاحب کو اعزاز کے ساتھ رخصت کردیا۔
***
بلا
مرزا صاحب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کئی مکان دیکھے ، جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا ، مگر محل سرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کومحل سرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں تو بتایا کہ:
’’اس مکان میں لوگ بلا بتاتے ہیں‘‘
مرزا صاحب نے یہ سن کر بولے:
’’کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بلا ہے ۔‘‘
***
بوتل اور دعا
ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی تو نماز پڑھنے چلے گئے ۔ اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہوا کہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی، چنانچہ اس نے شراب کا انتظام کیا اور مسجد کے سامنے پہنچا۔ وہاں سے مرزا کو بوتل دکھائی۔ بوتل دیکھتے ہی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد سے نکلنے لگے ،تو کسی نے کہا’’یہ کیا؟ کہ بغیر نماز پڑھے چل دیئے ‘‘
مرزا بولے:
’’جس چیز کے لیے دعا مانگنی تھی ، وہ تو یونہی مل گئی ۔‘‘
***
اُلو کو گالی بھی دینی نہیں آتی
مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے ۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے ‘ جیسے پہلے آچکے ہیں ۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔ پوچھا کس کا خط ہے ؟ اور کیا لکھا ہے ؟‘‘شاگرد کو اس کے اظہار میں تامل ہوا ۔ فوراًاس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی ۔ مسکراکر کہنے لگے کہ’’الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی ۔ بڈھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو ماں کی نہیں بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے ۔ جو ان کو جو روکی گالی دیتے ہیں کیونکہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے ۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا ۔ یہ جوبہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے ، اس سے زیادہ کون بیوقوف ہوگا؟‘‘
***
آکسفورڈ
شملہ میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔ گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی بات میں کچھ الجھاؤ پیدا ہو گیا تو جوش خطابت میں مولانا نے انگریزی میں بولنا شروع کر دیا اور سب کو لا جواب کر دیا۔ مجلس میں ایک ہندو رانی بھی تھی۔ اس نے جب ایک مولانا کو اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی اور پوچھا: ’’مولانا آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سیکھی؟‘‘
مولانا نے جواب دیا:’’میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے۔‘‘
انہوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔کہاں؟
تو مولانا شگفتگی سے بولے: ’’آکسفورڈ میں۔‘‘
جس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
***
شکر پارے از مشتاق یوسفی
محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے
آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے
مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے
ہم نے باون گز گہرے ایسے اندھے کنویں دیکھے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خود کو اوندھا دیں یعنی سر کے بل الٹے کھڑے ہوجائیں تو باون گز کے مینار بن جائیں گے
جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی
انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے
یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو، اتنا ہی چمکتی ہے
قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہوجائے
خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی
لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے
نام میں کیا رکھا ہے؟ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی
فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں
یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹا نہ جاسکے
جون ایلیا ایک دن کہنےلگےیوسفی صاحب میرے پاس اب پینتیس کُرتےاورایک پاجامہ رہ گیا ہے
عرض کیااسےبھی کسی کوبخش دیجئے تاکہ ایک طرف سے تویکسوئی ہو
***