اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہوکار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال، مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بِن لوگو
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہوکار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں، سود بیا ج بھی دے لیں گے
ہاں اور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لئے
سب عمر کی نقدی ختم کئے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت