انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے CMH میں گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا اور معائنوں کے بعد ہمیں بتایا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات رہ گئی ہے کیوں کہ علاج کافی وقت سے چل رہا تھا ہم کئی بار یہاں آچکے تھے۔
شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی میں اُسے کمرے میں لے آیا۔
محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا، "انشاء جی میں آپ کی پرِستار ہوں اور آپ میرے مثالِ کامل (آئیڈیل) ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا سرطان (کینسر) پھیل گیا ہے اور آخری مرحلے پر ہے۔میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے!میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپ کو دے رہی ہوں...!"
انشاء جی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا:
"ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں...!"
خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد انشاء جی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین (پرستار) ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے میرا تو وقت آ گیا ہے
اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش وخرم رکھے۔"
میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ میں اپنے عزیزوں سے مل آؤں جو کہ پنڈی میں رہتے تھے۔میں دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم :"اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے" رو رو کر سنائی جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا۔انشاء جی پچاس سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔