میرے بار بار مانگنے پر بھی ابا مجھے سائیکل نہیں دیا کرتے تھے۔۔ انہیں بہت پیاری تھی۔۔ اپنی سائیکل۔۔۔ جمعہ کے جمعہ اس کی سروس کرتے ساتھ ساتھ پرانے گانے چلتے۔۔۔
بابو جی دھیرے چلنا
پیار میں ذرا سنبھلنا
بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں
ہاں ذرا سنبھلنا
سائیکل نہ ہو جیسے محبوبہ ہو! اتنی محبت حد ہے بھئی!
میں کیا کرتا..!! مجھے ابا کی سائیکل بہت بھاتی ، جب موقع ملتا لے کر نکل پڑتا ۔ میں چلاتا بھی تو برے طریقے سے تھا ہی! اکثر ِگرا بھی دیتا ، چین اتر جاتی ۔ ہینڈل مڑ جاتا ۔۔۔میرے گھٹنے بھی چھل جاتے ۔۔۔اماں سے ڈانٹ الگ پڑتی۔۔۔
پھر ایک دن ابا نے سائیکل عزیز چچا کو دے دی۔۔۔ یہ میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔۔ شاید میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ۔۔ اپنے پیارے ابا کی یہ کج ادائی مجھے ہرگز نہ بھائی۔۔۔ وہ جانتے بھی تھے کہ مجھے سائیکل چلانے کا کتنا شوق ہے اور میری بجائے انہوں نے اُٹھا کر سائیکل عزیز چچا کو دے دی ۔ میں ابا سے بہت ناراض تھا۔
بچپن کے ہاتھ سے میرا ہاتھ نہ جانے کب چھوٹا پتہ ہی نہیں چلا اور میں بڑا ہو گیا سائیکل والی ناراضگی بھی میرے ساتھ ہی بڑی ہو گئی ۔
انہی دنوں میں نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور میرا میڈیکل میں داخلہ ہو گیا ۔۔۔ اور میں پڑھائی میں مصروف ہو گیا ۔۔ بچپن کی یادیں سنوار کر تہہ لگا کر سنبھال رکھی تھیں ۔ کبھی کبھار لوری کی دھنوں کی طرح بجتیں اُن میں ایک اداس دھن سب سے علیحدہ بجا کرتی ۔ گلی محلے سے گزرنے والی سائیکل کی گھنٹی اور ابا کے پرانے گانے آج بھی میری اداسی کا سبب بن جایا کرتے ۔ جانے کیوں سائیکل کا دکھ میرے دل سے جاتا نہیں تھا ۔ یادوں کی تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں دوڑتا پھرتا ، عجیب دکھ تھا کملا جھلا ۔ شاید بچپن کے سب دکھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں؟ پھٹی جیب سے آخری دو آنے گرنے کے دکھ جیسے۔۔۔
ابا بوڑھے ہو گئے۔۔۔ بیمار رہنے لگے ۔ وقت گزر گیا اور میں ڈاکٹر بن گیا ابا کو جانے کی جلدی تھی شاید میرے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے ، دو دن بعد ہی چلے گئے۔۔۔۔
عزیز چچا افسوس کرنے آئے ، دیر تک میرا ہاتھ تھام کر بیٹھے ابا کی باتیں کرتے رہے ابا کا ذکر ہو اور ان کی محبوبہ کا ذکر نہ چھڑے یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ہم سبھی سائیکل کو ابا کی محبوبہ کہا کرتے تھے۔۔۔
یار تیری فیس بھرنے کے لیے انہوں نے سائیکل بیچ ڈالی!! میں نے بہت کہا آپ ادھار لے لیں مگر ایک نہیں مانی ، تو جانتا ہے نا اپنے اصولوں کے کتنے پکے تھے تیرے ابا ۔۔!!
میں نے کہا اپنی محبوبہ کے بغیر جی پائیں گے؟
کہنے لگے میرے پتر پر ایسی ہزار محبوبائیں قربان۔۔۔۔
اِس سے آگے میں کچھ سُن ہی نہیں سکا ، میرے دل میں پڑی ناراضگی سسکنے لگی ،
بابو جی دھیرے چلنا پیار میں ذرا سنبھلنا
او بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں
یہ کیسا دھوکا کھایا تھا میں نے پیار میں۔