نہ میں سمجھی کسی کو نہ کوئی مجھ کو سمجھ پایا
حیات اور موت کے مابین نہ رشتہ سمجھ آیا
بہت بھٹکے ہیں بچپن سے سوال ، آوارگی اور میں
سوال انگلی پکڑ کر لے گیا دنیا کے میلے میں
مذاہبِ ، فرقے ، رشتے ، جھوٹ ، نفرت ، بغض ، خونریزی
نہیں اچھا لگا میلہ کسی سے کہہ نہیں پائی
سوائے ہم سخن کے ۔۔۔
سب ملے ، ملتے رہے مجھ کو
وہ سارے ٹھیک تھے ۔۔ بس
میں ہی ان میں نامناسب تھی
کئی رشتے بنائے ، سب کے سب ناخوش رہے مجھ سے
میری ماں بچپن سے ہی مجھ کو بڈھی روح کہتی تھی
اندھیرا دوست تھا میرا
اداسی راس تھی مجھ کو
میں تنہائی میں بیٹھی دیر تک خاموشی سنتی تھی
کبھی سوچا ۔۔ کوئی ہوتا میرے زخموں پہ مرہم رکھ کے جو کہتا
" مجھے سب اپنے غم دے دو "اداسی بانٹ لو مجھ سے "
" سیاہی اپنی قسمت کی میری تقدیر میں بھر دو " مگر ،
کوئی نہیں آیا ۔۔
میں بچپن میں بھی پگڈنڈی پہ بیٹھی سوچا کرتی تھی
یہ دنیا کیوں ہے ؟
میں کیوں ہوں یہاں ؟
سب کیا تماشا ہے ؟
زمین کی کوکھ جنتی ہی رہی ، حیرت کبھی الجھن...
پھر اک صدمہ بھی آ پہنچا
یہ ماں کو کیا ہوا ، دیکھو ۔۔۔
ہر اک آیت ، درود پاک جو ماں نے پڑھایا تھا
وہ سب کچھ پڑھ لیا میں نے
تیری خوشنودی کی خاطر جو بھی ماں نے سکھایا تھا
وہ سب کچھ کرلیا میں نے ۔۔
مگر ماں بچ نہیں پائی
میری ماں مر گئی اللہ ۔۔۔
اور اب دل کے قریب اک گھاؤ ہے
جو بھر نہیں پاتا
وہاں سے خون رستا ہے....!!!