اداسی پوچھتی ہے کہ
"بلاتی کیوں نہیں ان کو
انھیں کو جو تمہارے تھے
تمھیں دل سے جو پیارے تھے
ترے دل کے فلک پر جو
چمکتے کل ستارے تھے"
"بتاؤں کیا اداسی کو
جو تارے ٹوٹ جاتے ہیں
بکھرتے ہیں فضائوں میں
وہ پھر تارے نہیں رہتے
بلائیں یا پکاریں پھر
کبھی واپس نہیں آتے
کبھی واپس نہیں آتے"