سال اپنی آخری شب کو میری دہلیز پہ ٹھہر گیا ہے
میرے خیال کا گوشوارہ پھر سے بکھر گیا ہے
میری تنہائیاں میری وحشتیں بن کر
میرے چار سو آ رُکی ہیں
سال بھر کی تمام تلخیاں
پھر سے رگ و جاں میں اتر گئی ہیں
یہ سال کہ اپنے ساتھ بڑی صعوبتیں لے کر آیا
نفرتیں، دل آزاریاں اور کرب ناک لمحے
بے چینیوں بے تابیوں کے طویل سلسلے
محبتوں میں اذیّتوں کے سمے
مناظر دھرتی کے کروٹ بدلنے کے
موسم جھلسا دینے کے
لہجے تپا دینے والے
وہ چہرے اپنا آپ جتا دینے والے
وہ بد گمانیوں کی تند و تیز آندھیاں
وہ نگاہوں میں درد کی ندیاں
جو رواں تھیں رم جھم کی طرح
مومیائی لوگوں کے پتھریلے چہرے
کسی آزر کے گھڑے ہوئے صنم کی طرح
سب حکایتوں کے درمیاں وہ چہرہ جسے کہا قلب و جاں
وہی ناسور بن کر روح میں اُتر گیا ہے
یہ سال بھی آخر گزر گیا ہے