پچھلے مہینے صاحب آفیشلی ٹوور پہ کراچی گئے تو واپسی پہ پوچھا آپکے لئے کیا لاؤں ہم نے جھٹ فرمائش جڑ دی کہ پاندان ۔۔۔ حیرت ہوئی کہ دلچسپی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے منع نہیں کیا اور اگلے دن پاندان ہمارے چرنوں میں تھا ۔
ہم برس ہا برس سے ایک روایتی بھاری بھرکم پاندان کے لئے ترس رہے ہیں ملکیت کے لئے کئی بار قصداٌ خواب دیکھے اور کئی بار عملی کوشش کی کئی انٹیکس اور رسائی والے کباڑی بھی دیکھ لئے لیکن ایک بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکی تھی سو ہم نے کراچی والے مروّج پاندان پہ اکتفا کرنے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔ کراچی میں اسٹیل کے پاندان انتہائی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں کیونکہ وہاں ابھی بھی علامتی طور پہ بیٹیوں کو جہیز میں پاندان دینے کا رواج ہے کیمرا ٹرکس کے ساتھ پک لیں تو بھاری ہونے کا تاثر بھی دینے لگتے ہیں ۔۔ سو ہماری فرمائش پہ پاندان آگیا ۔۔
پڑھنے والے سوچتے ہوں گے ہم پنجابی ہیں پاندان پہ ہمارا بھلا کیا حق ۔۔۔ لیکن پان اور پاندان سے ہمارا لگاؤ بڑا جذباتی ہے بچپن میں ابا کی چچی ہمارے گھر آیا کرتی تھیں جنہیں ہم سب غرارے والی دادی کہتے تھے سفید خوبصورت گھیر دار غرارے اور سفید دوپٹے پہ گلاس نائیلون کی چوڑی بیل والے دوپٹے پہنتیں تھیں مختلف شادیوں میں دو چار بار جتنا دیکھا انکے ساتھ پاندان بھی ہوتا تھا بڑی خوش مزاج تھیں دن میں کئی بار چھوٹے چھوٹے خوشبودار پان بنا کے کھاتیں اور ساتھ بیٹھی خواتین کو فرمائشی پان کھلاتیں ۔ خوبصورت خوشبو دار گفتگو کرتیں تھیں ان کا پاندان منقش اور خوب بھاری سا تھا گلٹ کا تھا یا چاندی کا علم نہیں ہے اس کا ڈھکن کھولتے ہی گردو پیش میں سونف چھالیہ اور الائچی کتھے کی خوشبو پھیل جاتی ابا کی چچی لکھنؤ سے تھیں اور لکھنوی تہذیب و ثقافت کی مکمل آئینہ دار تھیں بیاہ کر پنجاب آگئیں ہمارے چھوٹے دادا بیوروکریٹ تھے دادا کی اس زمانے میں وہیں پوسٹنگ تھی شادی کیسے ہوئی ہماری تاریخ خاموش ہے پھر وہ تمام زندگی پنڈی اور اسلام آباد میں رہیں ۔
پان سے دوسرا جذباتی لگاؤ ابا کی وجہ سے تھا ابا پان کھاتے تھے لیکن ہمارے گھر میں پان دان نہیں تھا بس ڈھاکہ پان ہاؤس والا پانچ چھ پان کی گلوریاں بنا کے لفافے میں ڈال کے چھوٹے کے ہاتھ گھر بھجوا دیتا تھا کبھی کبھار یہ سروس یعنی ہوم ڈیلیوری شام کو بھی آتی تھی کہ ابھی تازہ تازہ مال آیا ہے اس لئے تازہ بھیج رہا ہوں ۔۔ مہینے کے مہینے حساب چکتا کیا جاتا ۔۔۔ ابا کی یاد آئے تو کبھی کبھی پان کے ہرے پتے کی خوشبو میں لپٹ کر آتی ہے اور ہمیں بے تحاشا بے چین کر دیتی ہے بس اسی بے چینی کو لگام ڈالنے کے لئے پاندان منگوایا تھا کبھی کبھار پان رکھتے ہیں بنا بنا کے کھاتے ہیں اور اپنا بھولا بسرا بچپن یاد کرتے ہیں ۔۔
لیکن پان کھانے کے آداب معلوم نہیں ہیں ہمیں پیک تھوکنی نہیں پڑتی نہ پچکاری آتی ہے ہم تو منا سا پان محبت سے بنا کے تمیز سے کھا جاتے ہیں ۔